ڈاکخانے کے ٹکٹ گھر پر خریداروں کی بھیڑ ایک چوبی طاقچے پر کچھ دواتیں، ایک قلم یہ قلم میں نے اُٹھایا اور خط لکھنے لگا: ”پیارے ماموں جی! دُعا کیجیے خُدا رکھ لے بھرم آج انٹرویو ہے !۔۔۔کل فیصلہ ہو جائے گا دیکھیں کیا ہو۔ مجھ کو ڈر ہے۔۔۔” اتنے میں تم آ گئیں ”اک ذرا تکلیف فرما کر پتہ لکھ دیجئے” میں نے تم سے وہ لفافہ لے لیا، جھجکا نہیں بے دھڑک لکھ ڈالا میں نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ مختصر، رنگین پتہ”گگت میں۔ گوہر کے نام” ”شکریہ”۔۔۔۔”جی کیسا”۔۔۔۔ اک ہنستی نگہ زیرِ نقاب ڈاک میں خط ڈالا۔۔۔۔۔تانگہ ٹمپل روڈ۔۔۔۔قصہ تمام مجید امجد