رُستمِ پنجاب میاں نواز شریف اور کپتان تحریکِ انصاف عمران خان کے درمیان ،28-اور 30اکتوبرکو لاہور میں ہونے والا سیاسی دنگل مِنی الیکشن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔لاہور کے اہم شاہراوں پر دونوں جماعتوں کے بڑے بڑے پوسٹرز آویزاں ہوں چُکے ہیں ۔دونوں جماعتوں کی قیادت اور سپوٹران بڑ ی گرم جوشی سے تیاریوںمیں مصروف ہیں ۔مسلم لیگ (ن)کا پنجاب اور خاص طور پر لاہور سیاسی گڑھ مانا جاتاہے اگر ہم ماضی کے الیکشن بھی دیکھیںتو مسلم لیگ (ن )کو سب سے زیادکامیا بیاں لاہور سے ہی مِلی ہیں جبکہ مدِمقابل تحریک انصاف کو کبھی بھی لاہو ر سے کوئی کامیابی نصیب نہیںہوئی ،لیکن اب صورتحال پہلے سے بہت مختلف ہے ۔عمران خان کی ینگ جنریشن میںبڑھتی ہوئی غضب کی مقبولیت اور پشاور، گُجرانولہ ، فیصل آبا د ، گجرات اور سندھ کے کامیا ب جلسوں نے اُسکے سیاسی مُستقبل کو اور روشن کر دیاہے اور تحریک ِانصاف کا شما رآج پاکستان کی اُبھرتی ہوئی سیاسی جماعتوں میں ہورہا ہے۔مسلم لیگ (ن) اپنے 28اکتوبر کو نکالے جانے والی ریلی کو حکومت کے خلاف شروع کی ہوئی تحریک (زرداری ہٹائو مُلک بچائو )کا ایک حصہ بتا رہی ہے لیکن ا صل میں یہ مقابلہ ہے تحریک ِانصاف سے کیونکہ عمران خان کے ان دنوں ہوئے کامیاب جلسوں نے اور پھر پنجاب کے سابق گورنر میاں محمد اظہر کی تحریک ِانصاف میں شمولیت نے مسلم لیگ (ن)سمیت کئی اور سیاسی جماعتوں کو اند ر سے خوفزدہ کر دیاہے۔ایک تجزیہ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کے اُنہوں نے جو ریلی نکالنے کے لیئے ناصر باغ سے بھٹی گیٹ کا اِنتخاب کیا جو لاہور کی مصروف ترین شاہراوں میں سے ایک ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق اگر دو لاکھ سے اڑھائی لاکھ لو گ بھی ریلی میں شرکت کرتے ہیں تو وہ ایک بھرپور اور کامیاب ریلی کہلائے گی،جبکہ عمر ان خان نے اپنے جلسہ کے لیئے جس جگہ کا انتخاب کیا ہے وہ ہے میناِرپاکستان ۔ اگر ساڑھے چار سے پانچ لاکھ وہاں شرکت کرتے ہیں تو تبھی ایک کامیاب جلسہ شُمار کیا جائے گا۔ اگر نواز شریف کی ریلی اور عمران خان کا جلسہ دونوں ہی کامیا ب ہو جاتے ہیںتو لوگوں کی تعداد کے حساب سے برتری عمران خان کی ہوگئی ،اگروہ چار یا ساڑھے چار لاکھ لوگوں کو جمع کرپاتے ہیں۔ جو کہ مسلم لیگ (ن) کے لیئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوگا ۔چند ایک سیاسی حلقوں میں یہ چہ موگوئیاں بھی ہورہی ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ناراض کار کُنان ،خصوصی طور پر شاہ محمود قریشی بھی اس ریلی اور جلسہ کے بعد دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنی شمولیت کا اعلان کرسکتے ہیں ۔جس طرح آجکل عمرا ن خان کے ہر طرف چرچے ہیں اگر اُس معیار کا وہ جلسہ کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیںتو پھر شاہ محمود قریشی کا جُھکائوعمر ان خان کی طر ف ہوتا زیادہ دِکھائی دیتا ہے اور اگر ایسا ہوجا تا ہے تو پھر مسلم لیگ (ن) کی جو پنجاب میں چودھراہٹ ہے وہ خطرے میں ضرور پڑ جائیگی۔آنے والے الیکشن میں ابھی تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ پڑ ا ہے لیکن تما م سیاسی جماعتوں نے جوڑ توڑ ابھی سے شروع کردیا ہے۔ نئی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ جو ڑ توڑ کی سیاست سے ہٹ کر ابھی سے عوام کے سامنے اپنی اپنی پارٹی کا ایسا جامع منشور پیش کریں جس میں عوام کو درپیش تما م مسائل کا حل ہو ،مثا ل کے طورپر پاکستان کا اِس وقت سنگین ترین مسلئہ ہے بجلی کا بُحران اس ایک مسئلے کو اپنے منشور میںزیادہ فوکس کیا جائے اور عوام کو بتایا جائے کہ اگر اُن کی پارٹی اقتدار میں آجاتی ہے تو وہ کتنے وقت میں اور کسطرح اس مسلئہ پرقابو پالے گی اور عوام کو اس ساری صوتحال سے ابھی سے آگاہ کیا جائے تو یہ عوام اور پارٹی دونوں کے لیئے سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔ جب سے پاکستان تحریک انصاف وجود میں آئی کسی بھی الیکشن میں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی ،یہاں تک کہ تحریک ِانصاف کو ون مین پارٹی اور عمران خان کو سیاست کا لنگڑا گھوڑا کہا جانے لگا ۔لیکن عمران خان نے تمام تنقیدوں کا دلیری سے سامنا کیا اور اپنی دُھن کے پکے لگن کے سچے نکلے اُسی دلیری کے نتیجہ ہے کہ آج عمران خان کا نا م شہید ذوالفقارعلی بُھٹو کے ساتھ جوڑ جا رہا ہے اور ذوالفقار علی بُھٹو وہ پہلے ایسے لیڈر تھے جو عوام کے دلوں میں بسے ہوئے تھے ۔ شہید ذوالفقارعلی بُھٹو کے پہلی بار وزیر اعظم بننے سے پیپلز پارٹی کو کوئی جانتا تک نہیں تھا لیکن جب لوگوں میں تبدیلی کی لہر اُٹھی تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی میں عوام کا ایسا سیلا ب آیا جو تما م دوسری جماعتوں کو اپنے ساتھ بہا لے گیا اور پیپلزپارٹی اتنی مظبوط پارٹی بن گئی کہ آج بھی پیپلز پارٹی کے ووٹرز کو توڑنا نا ممکن ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج پیپلز پارٹی وہ پیپلزپارٹی نہیں رہی جس کی بُنیاد شہید ذوالفقارعلی بُھٹو نے رکھی تھی ،جس پارٹی کا نعرہ تھا ،روٹی ،کپڑا اور مکان اور جو پارٹی صر ف غریبوں کی پارٹی تھی آج اُسی پارٹی کا لیبل لگا کر گھومنے والے غریبوںکو کس طرح دھتکارتے ہیں اُس کی ایک مثال، شیخو پورہ میں بابر اعوان کے ایک جلسے کے دوران دیکھنے کو ملی جو یقیناپور ی پاٹی کے لیئے باعث شرم ہے۔ بابر اعوان کی اس حرکت کا پردہ فاش کرنے کا پورا کریڈیٹ بھی الیکٹرونک میڈیا کو جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کے پیچھلے چند سالوں سے الیکٹرونک میڈیا نے ایسے کئی سیاستدانوں کے اصلی چہروں کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔اب عوام میں اتنا شعور پیدا ہوگیا ہے کہ وہ اچھے اور بُرے کی پہچان باخوبی کر سکتے ہیں۔اُمید ہے کہ اس بار عوام ،تیر ی باری اب میری باری،والی پارٹیوں سے چھٹکارہ حاصل کرلے گی ،تاریخ گواہ ہے کہ تبدیلی ہمیشہ مڈل کلاس طبقہ اور ینگ جنریشن کی وجہ سے آئی ہے اور اب یہ دونوں طبقے پوری طرح سے بیدار ہوچُکے ہیںاس لیئے اب پاکستان میں آنے والے تبدیلی کو دُنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ہے۔پاکستان میں ایک بار پھرسے تبدیلی کی ہو ا چل اُٹھی ہے اور اس بار عوام کا ٹھاٹھیں مارتے ہوئے بڑے سیلابی ریلے کا رُخ عمران خان کی تحریک ِانصاف کی طرف بھی مُڑسکتاہے۔اصل میں یہ ساری قیاس آرائیاںہیںہونا وہی ہے جو پاکستان کی عوام چاہے گئی۔اکتوبر 28کا دن بہت ہی اہم دن ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے لیئے اور 30اکتوبر تحریک ِانصاف کے لیئے او ر پھر 30اکتوبر کے بعد لاہور میںبڑے دلچسپ سیاسی ڈرامے دیکھنے کو ملنے والے ہیں ،بس اب تھوڑا اور انتظار کریںاور پھر دیکھیں کہ مستقبل میں یہ، لاہور کا سیاسی دنگل کیا گُل کِھلائے گا۔ تحریر : کفایت حسین