کچھ عرصہ پہلے لاہور کے تماسیل تھیٹر میں سہیل احمد کا اسٹیج ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا،جس میں وہ تین بیٹوں کے باپ کا کردار نبھارہا ہوتاہے ۔ گائوںکا ایک پُرانا دوست اُس سے ملنے آتاہے۔دونوں ایک دوسرے سے ملکر بہت خوش ہوتے ہیں۔ سہیل احمد کا دوست اُس سے اُسکے تینوں بیٹوںکے بارے میں پوچھتا ہے جن میں سے دو ڈس ایبل اور ایک نہائیت ہی نِکما ہوتا تھا۔سہیل احمد بتاتا ہے کہ اُسکا بڑا بیٹا جو اندھا تھا اب وہ پاکستان ہلال کمیٹی کا ممبر ہے ، وہی چاند دیکھ کر بتاتاہے عید ہوگی یا نہیں ہوگی،اور دوسرا بیٹا جو لنگڑا تھا وہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں فاسٹ باولر ہے ،تیسرا اور سب سے چھوٹا بیٹا جسے چوری کرنے کی عادت تھی اب وہ تھانیدار بن چُکاہے ۔ سہیل احمد کا دوست اُس سے طنز یہ کہتاہے ، واہ کیا بات ہے، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگرتیرے ان بیٹوں جیسا ایک اور بیٹا ہوتا تو وہ یقینا پاکستان کا بڑا سیاستدان ہوتا ، یہ باتیں ِ یقینا نا قابلِ یقین ہیں صرف لوگوں کے مایوس چہروں پر مسکراہٹیں بیکھرنے کے لیئے ایسی مزاحیہ کہانیاں تحریر کی جاتی ہیںلیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلموں یا پھر ڈراموں کی کہانیاں معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں، مصنف ہمیشہ وہی لکھتے ہیں جو اُنھیں معاشرے میں نظر آرہا ہوتا ہے ،لیکن ہر کسے کے لکھنے کا اپنا الگ ڈھنک ہوتا ہے اس لیئے سہیل احمد کا یہ ڈرامہ بھی بے معنی نہیں ہے اُس نے طنز ومزاح میں معاشرے کی اُن چند بُرائیوں کوہمارے سامنے پیش کیا ہے جو پاکستان کے لیئے ناسور بنی ہوئی ہیں۔ اگر کسی اندھے کا ہلال کمیٹی کا ممبر ہونا ناممکن ہے تو پھر پا کستان میں دو عیدیں کروانے والے کیا ہوئے ؟اگر وہ آنکھوں سے نہیں تو پھر عقل کے اندھے ضرور ہیں۔جس مُلک میں ،ایک خُدا،ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اور ایک قرآن ، کو ماننے والی قوم ایک ہی مُلک میں ایک ساتھ عید منانے پر متفق نہیں ہوسکتی، تو اُس قوم سے قومی مفاد کے لیئے یکجا ہونے کی اُمید کیسے کی جاسکتی ہے یقیناپاکستانی قوم کے لیئے یہ لمحہ ِفکرہے۔پاکستان کے علاوہ او ر دوسرے بھی اسلامی ممالک ہیں جیسکہ ، سعودی عرب، بحرین ، قطر ، کویت اور متحدہ عرب امارات وغیرہ،ان ممالک آج تک ایک عید کو دو الگ الگ دنوں میں نہیں پڑھا گیا۔ پھر پاکستان میںہی ہر بار ایسا کیوں ہو رہا ۔ ہمیشہ وقت سے پہلے یا پھر وقت کے بعد جن فریبی مُلائوں کا چاند نطر آتا ہے،اصل میں وہ آنکھوں والے اندھے ہیںاور ساتھ میں اندھا کیا ہوا معصوم قوم کو۔اب بات تھوڑی کرکٹ کی ، کسی بھی معذور شخص کاپاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائیندگی کرنا ناممکن ہے صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ دوسرے کھیلوں کی بھی مشلاً ،ہاکی، فُٹ بال ، وغیرہ ، کیونکہ ایسے کھیلوں کے لیئے کسی بھی کھلاڑی کا جسمانی اورذہنی طورپر مکمل فٹ ہونا بہت ضروری ہے ۔لیکن وہ کھلاڑی جن کی سلیکشن میرٹ پر نہیں ہوتی ہے (یعنی سفارشی کھلاڑی) یا پھر عامر ، آصف اور سلمان بٹ جیسے وہ کھلاڑی جنکی وجہ سے سپورٹس کے ساتھ ساتھ ملک کی بھی رُسوا ئی ہوتی ہو ،ان جیسے کھلاڑیوں کا کسی بھی ٹیم میں ہونا ایسے ہی ہے جیسے کسی معذور کھلاڑی کا کسی ٹیم کا حصہ ہونا ہے۔ پاکستا ن میں کرکٹ کے زوال کو دیکھتے ہوئے میرا پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیئے ایک مشورہ ہے کہ وہ کوئی ایسی مشین کی تخلیق کریں جسکے زریعے فٹنس کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کا جذبہ حُب الوطنی اور ایمانداری بھی چیک کی جاسکے تاکہ صرف ایسے کھلاڑیوں کی سیلکشین ہو جو پرفارمنس کے ساتھ وطن سے بھی محبت رکھتے ہوں۔ ہمیںیقین ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی ٹیم اگرایمانداری اور حُب الوطنی کے جذبے سے کھیلے تو وہ دنیا کے کسی بھی میدان میں ہار نہیں سکتی اور یہ ہماری کرکٹ ٹیم نے حال ہی میں دبئی کے ٹیسٹ میچ میں ورلڈنمر1انگلینڈ کو دس وکٹوں سے ہرا کر یہ ثابت کردیاہے۔اب آخر میں بات ہماری پاکستان پولیس کی،میرا ایک نہائیت ہی قریبی جاننے والا اتقاقاً پولیس میں تھانیدار بھرتی ہو گیا ۔اُسکا تقریباً 16 یا 18سال کی عمر کا ایک واقع یادہے اور یہ بالکُل حقیت ہے کو ئی فرضی کہانی نہیں۔ہم ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور اُسی محلے میں ہمارے ایک اور دوست کی کریانہ کی دُکان ہوا کرتی تھی،ہم اکثر رات کے کھانے کے بعد سب دوست اُس دُکان پر گَپ شَپ مارنے کے لیئے اکٹھے ہوا کرتے تھے، ایک رات ہمار ے اس بھائی صاحب نے اُسی دُکان سے ایک انڈہ چُرا کر اپنی قمیض کی سامنے والی جیب میںرکھ لیا،سخت سردیوں کا موسم تھا سویٹر اور کمبل اُس نے اوڑھا ہوتھا اس لیئے اُسکی اس حرکت کا کسی کو پتہ نہ چل سکا،پھر ہوا یہ کے مذاق ،مستی کرتے ہوئے وہ دُکان کے کائونٹر سے جا ٹکرایا اور قمیض کی سامنے والی جیب میں رکھا ہو انڈہ ٹوٹ گیا اور اُس کی چوری کا بھا نڈا بھی پھوٹ گیا، سبھی دوستوں کو اُسکی اس cheapحرکت کا پتہ چل گیا جسکی اُسے خود بھی بڑی شرمند گی اُٹھانا پڑی،یہ ایک معمولی سی بات ضرور ہے لیکن ا یسی حر کتو ں سے ہی انسان کی فطرت کا پتہ چلتا ہے آجکل وہ انڈہ چور بھائی صاحب کسی تھانے میں نِکے تھانیدار صاحب ہیں، یہ ایک کڑوا سچ ہے فطرت نہیںبدلتی اب ایسے تھانیداروں سے کیسی توقع کی جاسکتی ہے وہ شاید بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آئے دن ایسے نکے تھانیداروں کے کارنامے ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگر کے ماحول پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر گلی اور ہر موڑ پر جرم ہوتے نظرآئیں گئے،کہیں کوئی دودھ میں پانی مِلا رہا ہے،کوئی ماپ تول میںبے ایمانی کر رہا ہے،کوئی سکول جاتی لڑکیوں کو چھیڑ رہا ہے،کوئی شیطان صفت انسان حوا کی بیٹی کی عزت کو تار تار کر رہا ہے،کوئی ناجا ئز طریقوں سے بجلی چوری کررہا ہے ،یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہوتا ہے، لیکن ہم اَن د یکھی کر کے گُزر جاتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ رشوت لینے والا اور دینا والا دونوںجہنمی ہیں اسکے باوجود ہم خود رشوت دیتے ہیں لیکن جہنمی سمجھتے ہیں صر ف لینے والے کو ،ہم جانتے ہیں کہ ظُلم کرنا اگر گُناہ ہے تو ظُلم سہنا اُس سے بھی بڑا گُناہ ہے لیکن ہم ظالم کے آگئے جُھک جاتے ہیںاورکمزور کے آگئے سینہ تان کے کھڑے ہوجاتے ہیں۔آخر کب تک ہم یہ جھوٹ اور فریب کی زندگی جیتے رہیں گئے ؟ قائد اعظم نے فرمایا تھا !پاکستان ایک غیرت مند اور زندہ قوم ہے لیکن اگرآج ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھتے ہیں تو ہمیں سِوائے شرمندگی کے کچھ نظر نہیں آتا ،کیونکہ جو قومیں زندہ ہوتی ہیںاُن ممالک میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا آج جو پاکستان میں ہورہا ہے بڑے ہی افسوس یہ لکھنا پڑتا ہے کہ پیارہ پاکستان کرپشن ، بدامنی، دہشت گردی ، بے روزگاری ، اور مفلسی کی تصویر بن چکا ہے اور یقینا یہ وہ پاکستان نہیںہے جو ہمارے عظیم قائد نے ہمیں دیا تھا۔ تمام مُحبِ وطن پاکستانیوں سے یہ التجاء ہے کہ خُد ا کے لیئے بیدار ہو جائو غفلت کی نیند سے اور نکل آئو سڑکوں پر ہاتھوں میں اُٹھائے سبز ہلالی پرچم،1947کی طرح پھر سے آزاد کروانے کے لیئے پاکستان کو ،لُٹیروں سے، غاصبوں سے، رشوت خوروں سے ، مفاد پرستوں سے، مُنافقوں سے، بھتہ خوروں سے ، کرپٹ سیاستدانوں سے ، فریبی مُلائوں سے اور بے ایمان کھلاڑیوں سے ، اور اگر تماشائی بن کر صرف تماشہ ہی دیکھنا ہے تو پھراپنے آپ کو زندہ قوم اور ایک سچا پاکستانی کہلوانا چھوڑدو اور کسی کونے میں لمبی تان کے سو جائو۔ تحریر : کفایت حسین کھو کھر