یہ کوئی دو بجے کا وقت تھا، بادلوں کا ایک ہلکا سا غلاف چاند کو چھپائے ہوئے تھے۔ یکایک میری آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ساتھ والی چارپائی پر اماں سسکیاں لے رہی ہیں۔ کیوں امی؟ میں نے گھبرا کر آنکھیں ملتے ملتے پوچھا۔ کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امی۔ اماں نے سسکیاں اور ہچکیوں کے درمیان میرے سوال کو غصہ سے دہراتے ہوئے کہا۔ ” شرم نہیں آتی، باپ کو بھی اور بیٹے کو بھی اتنے بڑے ہو گئے ہو، کچھ خدا کا خوف نہیں۔
آخر ہوا کیا؟ میں نے جلدی سے بات کاٹ کر پوچھا۔ یہ آدھی رات کے وقت رونا کیسا؟ گرمیوں کے دن تھے ہم سب برآمدے میں سو رہے تھے مگر ابا اندر سامنے ایک کمرے میں سو رہے تھے۔ انکی طبعیت ناساز تھی اور انہیں اکثر گرمیوں میں بھی سردی لگ جانے کا اندیشہ لاحق رہتا تھا۔ اسلیے عموما وہ اندر ہی سویا کرتے تھے۔
آخر انکی آنکھ بھی کھل گئی۔ وہیں بستر پر سے کروٹ بدل کر بولے۔ کیا بات ہے وحید؟ تمہاری اماں کیوں رو وہی ہے؟ میں کیا بتاؤں ابا؟ بس رو رہی ہیں۔ ہاں اور تمہیں کس بات کی فکر ہے۔ اماں کی ہچکیاں اور تیز ہو گئیں۔ پتہ نہیں میرا لال اسوقت کس حالت میں ہے۔ میرا چھوٹا محمود، اور تم یہاں پڑے سو رہے ہو۔ وہاں اسکا کون ہے؟ نہ ماں، نہ بھائی، نہ بہن اور تم خراٹے لے رہے ہو۔ آرام سے جیسے تمہیں کسی بات کی فکر ہی نہیں ( سسکتے ہوئے) میں نے ابھی ابھی اپنے چھوٹے محمود کو خواب میں دیکھا ہے۔
وہ ایک میلے کچیلے بستر میں پڑا بخار سے تپ رہا تھا۔ اسکا پنڈا تنور کی طرح گرم تھا۔ وہ کرہتے ہوئے اماں، اماں کہہ رہا تھا۔ یہ کہہ کر اماں زور زور سے رونے لگیں۔ اماں کا ” چھوٹا محمود ” اور میرا بڑا بھائی لاہور بی اے میں تعلیم پاتا تھا۔ تھرڈ ائیر میں ایف اے کا امتحان دیکر لاہور سے یہاں مئی کے مہینے میں آ گیا تھا مگر محمود کو ابھی لاہور کی تپتی ہوئی فضاؤں میں پورا ایک مہینہ اور گزارنا تھا لیکن اب جون کا مہینہ بھی گزر گیا تھا اور محمود ابھی تک لاہور سے واپس نہ آیا تھا۔
اماں بہت پریشان تھیں اور سچ پوچھیے تو ہم سب بہت پریشان تھے۔ ہم نے اسے پرسوں ایک تار بھی دیدیا تھا اور مدتوں کیبعد اچانک محمود کا ایک خط بھی آیا تھا۔ چند مخفی سطور تھیں۔ لکھا تھا۔ ” میں بیمار ہوں، ملیریے کا بخار ہے لیکن اب ٹوٹ رہا ہے، چند دنوں سے یہاں بہت بارش ہو رہی ہے۔
اگر لاہور کا یہ حال ہے ہے تو اسلام آباد میں کیا ہو گا۔ کیا کشمیر آنے کا راستہ کھل گیا۔ جلدی لکھیے کہ کس راستے سے آؤں؟ کیا جموں یانہال روڈ سے آؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ کوہالہ اوڑی سڑک سے کونسا راستہ بہتر رہیگا؟ ہم نے سوچ بچار کیبعد ایک تار اور دیدیا تھا۔ گو بارش بہت ہو رہی تھی اور دونوں سڑکیں شکستہ حالت میں تھیں۔ پھر بھی کوہالہ اوڑی روڈ، پانہال روڈ سے بہتر حالت میں تھی۔ اس لیے یہی مناسب سمجھا کہ محمود کوہالہ روڈ سے ہی آئے۔ اب آدھی رات کے وقت یہ افتاد آ پڑی۔
ابا کی نیند پریشان ہو گئی تھی بولے! تو اس کا کیا کیا جائے؟ اور تمہیں تو یونہی دل میں وسوسے اٹھا کرتے ہیں۔ بھلا اسکا علاج کیا؟ آخر محمود کوئی بچہ تو نہیں؟ تمہیں فکر کس بات کی ہے؟ ہزاروں ماؤں کے لال لاہور میں پڑھتے ہیں اور ہوسٹلوں میں رہتے ہیں۔ آتا ہی ہو گا، اگر آج صبح وہ لاہور سے چلا تو شام کو وہ راوالپنڈی پہنچ گیا ہو گا کل کوہالہ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں جلدی سے بولیں۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور؟ کیا غضب کرتے ہو اور اگر خدا نہ کرے۔ اسکا بخار ابھی نہ ٹوٹا ہو تو پھر؟ میں پوچھتی ہوں تو پھر؟ یہ کہہ کر اماں رک گئیں اور دوپٹے سے آنسو پونچھ کر کہنے لگیں۔ ” مجھے موٹر منگوا دو۔ میں ابھی لاہور جاؤں گی۔ ”
اب تم سے کون بحث کرے ہمیں تو نیند آئی ہے۔ یہ کہہ کر ابا کروٹ بدل کر سو رہے۔ میں نے بھی یہی مناسب جان کر آنکھیں بند کر لیں۔ مگر کانوں میں ماں کی مدھم سسکیوں کی آواز جسے وہ دبانے کی بہت کوشش کر رہی تھی برابر آ رہی تھی۔
Maternal affection
کیا دل ہے ماں کا اور کتنی عجیب ہستی ہے اسکی ؟ میں آنکھیں بند کیے سوچنے لگا۔ ماں کا دل، ماں کی محبت، مامتا، کس قدر عجیب جذبہ ہے۔ عالم جذبات میں اسکی نظیر ملنی محال ہے۔ نہیں یہ تو اپنی نظیر آپ ہے۔
ایک سپنے کے دھند لکے میں اپنے بیمار بیٹے کو دیکھتی ہے اور چونک پڑتی ہے، لرز جاتی ہے۔ مامتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس جزبے کا احساس محض جسمانی ہے، محض اسلیے کہ بیٹا ماں کے گوشت وپوست کا ایک ٹکڑا ہے؟ اور کیا ہم سچ مچ فلابیر کے تخیل کے مطابق اس کائنات میں اکیلے ہیں، تنہا بے یارومددگار، ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے بھی نا آشنا مگر میں بھی تو محمود کا بھائی ہوں۔
میری رگوں میں وہی خون موجزن ہے۔ ہم دونوں ایکدوسرے کو چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کے ان بیس سالوں میں صرف دو دفعہ محمود سے جدا ہوا ہوں اور وہ بھی نہایت قلیل عرصوں کیلئے۔ پر میں اس قدر اس کے لیے بے تاب و بیقرار نہیں۔ مامتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہم سچ مچ پتھروں کے تودوں کیطرح ہیں، مصر کے میناروں کی طرح خوبصورت لیکن بے جان اشوک کے کتبوں کیطرح سبق آموز لیکن بے حس، بے روح مامتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھ نے کہا تھا کہ یہ دنیا دھوکا ہے، سراب ہے، مایا ہے، ہو گی لیکن یقین نہیں پڑتا آخر یہ حسین جذبہ کہاں سے آیا؟ اور کائنات کے ایک گوشے میں سسکتی ہوئی اماں کیا یہ بھی ایک دھوکا ہے؟ سچ جانیے یقین نہیں پڑتا ہے۔
چھوٹا محمود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا ننھا محمود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا لال امی ہلکی ہچکیوں میں بھائی کا نام لے رہی تھیں۔ کتنی معمولی سے بات تھی۔ بھائی جان شاید ابھی لاہور ہی میںہونگے۔ ضیافتیںاڑاتے ہونگے، سینما دیکھتے ہونگے۔ یا اگر لاہور سے چلے آئے ہوں تو راوالپنڈی میں اسوقت خواب خرگوش میں پڑے خراٹے لے رہے ہونگے۔
ملیریا کیا عجب ملیریا کا بخار مطلق ہی نہ ہو۔ میں بھائی جان کے بہانوں کو خوب جانتا ہوں۔ اماں بھی جانتی ہیں مگر پھر بھی رو رہی ہیں۔ آخر کیوں؟ مامتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید یہ کوئی روحانی قرابت ہے، شاید اس انسانی مٹی میں کسی ازلی آگ کے شعلوں کی تڑپ ہے۔ معا مجھے موپا ساں کا افسانہ ” تن تنہا ” یاد آ گیا۔ جس میں اس نے اس شدید احساس تنہا کا رونا رویا ہے۔
آہ بے چارہ موپاساں وہ ایک ماہر نفسیات تھا اور ایک ماہر نفسیات کیطرح وہ کئی بار نفسیاتی واردات کا صحیح اندازہ کرنے سے قاصر رہا۔ اسکے افکار نے اسے کثرت غلط راستہ پر ڈال دیا۔
” تن تنہا ” ایک ایسی ہی مثال ہے۔ وہ لکھتا ہے۔ عورت ایک سراب ہے اور حسن ایک فروعی مرہم ایک دوسرے کے متعلق کچھ نہیں جانتے، میاں بیوی سالہا سال ایکدوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ایکدوسرے سے بیگانہ ہیں۔ دو دوست ملتے ہیں اور ہر دوسری ملاقات میں ایکدوسرے سے دور چلے جا رہے ہیں۔ نوانی محبت مستقل دھوکا ہے اور جب میں عورت کو دیکھتا ہوں تو مجھے چاروں طرف موت ہی موت نظر آتی ہے۔
میں نے آنکھیں کھول کر اماں کیطرف دیکھا، امی روتے روتے سو گئی تھیں، گال آنسوؤں سے گیلے تھے اور بند آنکھوں کی پلکوں پر آنسو چمک رہے تھے۔ کیا امی موت ہے؟ اور کیا مامتا بھی کوئی ایسا ہی ہلاکت آفرین جذبہ ہے؟ شاید موپاساں غلطی پر تھا۔ شاید اسے یہ لکھتے وقت اپنی شفیق ماں کی یاد نہ آئی تھی۔ وہ اس کی جان بخش لوریاں، وہ نرم نرم تھپکیاں جبکہ وہ بچوں کی طرح صرف ” اوں اوں ” کہہ کر بلبلا اٹھتا تھا اور اسکی چھاتی سے لپٹ جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نسوانی محبت مستقل دھوکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید اسے اپنی اماں کے وہ طویل بوسے بھول گئے کہ جب بڑا ہونے پر بھی اسکا نفسیاتی سر اپنے بازوؤں میں لے لیتی تھی اور پیار کرتی تھی۔
جب وہ مامتا سے بیقرار ہو جاتی تھی اور انکی غیر حاضری میں بھی اس کی راہ دیکھا کرتی تھی، اسکی ہر غلطی کو بچوں کی بھول سے تعبیر کیا کرتی تھی اور گناہ کو نیکی میں مبدل کر دیتی تھی۔ اس دنیا میں ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں وہ اس شدید احساس تنہائی جس کی موپاساں کو شکایت ہے، جو دنیاوی کلفتوں اور الفتوں میں بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا، نجانے وہ ماں کی گود میں آ کر کیسے ناپید ہو جاتا ہے؟
ماں کے جذبہ محبت میں ایک ایسی دیوانگی و وارفتگی ہے جو اسکی انانیت کو فنا کر دیتی ہے اور اسکی ذات کو بچوں میں منتقل کر دیتی ہے۔ یقینا ہم اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
good looking chick
غٹرغوں، غٹرغوں، ککڑوں کوں، کبوتر، مرغ، چڑیاں، دوشیزہ سحر کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ انکی خوش الحانی نے مجھے بیدار کر دیا۔ میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ ٹانگیں چارپائی سے نیچے لٹکا دیں اور آنکھیں ملنے لگا۔ اتنے میں آنگن سے اماں کی آواز آئی۔
” بیٹا وحید اٹھو، محمود آ گئے”۔ آنکھیں کھول کر دیکھا تو سچ مچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اماں آنگن میں اگے ہوئے پنجتار کے بوٹے کے نیچے ایک مونڈے پر بیٹھی تھیں اور محمود ان کے پیروں پر جھکا ہوا تھا۔ میں جلدی سے اٹھا آنگن میں ہم دونوں بھائی بغل گیر ہوئے۔
اتنے دن کہاں رہے؟ میں نے محمود سے پوچھا۔ محمود نے شوخ نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور آنکھ میچ لی۔ پھر گردن موڑ کر پنچ تارے کے سرخ سرخ پھولوں کے گچھوں کو غور سے دیکھنے لگا۔
کوئی سات روز جھڑی رہی، متواتر بارش ہونے سے سڑک جابجا سے بہہ گئی تھی اور سپرنٹنڈنٹ ٹریفک نے راستہ بند کر دیا تھا۔ اس نے آہستہ سے جواب دیا اور یہ کہہ کر ایک ہاتھ میرے ہاتھ کو پکڑ کر زور سے ہلانے لگا۔ اماں کدو چھیل رہی تھیں اور ہم دونوں کو دیکھتی جاتی تھیں۔ ان کی آنکھیں پرنم تھیں۔ آنسوؤں کے ان دو سمندروں میں خوشیوں کی جل پریاں ناچ رہی تھیں۔