محمد ابراھیم منشی محمد خان کے قریب جنہان سومرو گاؤں میں پیدا ہوئے۔ والد کے انتقال کی وجہ سے وہ چوتھی جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکے تاہم ان کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت وسیع تھا۔
انہوں نے سولہ سال کی عمر میں رومانوی شاعری شروع کی اور بعد میں عوامی اور انقلابی شاعری کرنے لگے۔ ان کی نظمیں انیس سو پینسٹھ کے بعد مختلف جرائد میں چھپنا شروع ہوئیں۔ ان کی شاعری کا محور سندھ اور سندھ کے لوگ رہے۔
منشی کے چار مجموعہ کلام دھونرے ڈینہن دھاڑا دن دہاڑے ڈاکے، گوندر ویندا گذری غمِ دن ڈھل جائیں گے، دھرتی دین دھرم اور پیغام، مظلوم، شائع ہو چکے ہیں۔ انقلابی شاعری عوامی لہجے، لوک موسیقیت اور دھن کی وجہ سیبیحد مقبول ہوئی۔ منشی کی شاعری سندھ کے سیاسی کارکنوں کے لئے ہمیشہ جذبہ اور حوصلہ دلانے کا باعث رہی۔
وہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے بڑے معتقد تھے اور جب وہ مخصوص انداز میں بھٹائی کا کلام پڑھتے تھے تو سننے والوں پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ ان کی آواز میں تحت کلام کے انداز میں بھٹائی کی شاعری ریڈیو پاکستان اور بعض دیگر ثقافتی اداروں نے ریکارڈ کی۔
محکم ثقافت سندھ نے ان کی آواز اوردھن میں گائی ہوئی بھٹائی کی شاعری انٹرنیٹ پر بھی جاری کی تھی۔ منشی شاعروں کے اس مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے جو کتابوں میں چھپوا کر الماریوں میں بند رکھنے کیلئے شاعری نہیں کرتے تھے بلکہ ایسی شاعری کرتے تھے جو واقعی گائی بھی جاسکے۔
ابراہیم منشی شروع سے ہی قوم پرست سیاست میں سرگرم رہے۔ وہ سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کے بڑے معتقد تھے، چھ مرتبہ مختلف ادوار میں قید رہے۔ دل کے عارضے میں مبتلا تھے لیکن غربت کی وجہ سے علاج نہ کرا سکے۔ جس کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔