سپریم کورٹ(جیوڈیسک)جسٹس میاں شاکراللہ جان نے کہا ہے توہین عدالت کے نئے قانون میں مراعات یافتہ طبقے کو استثنی دے کرحقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔قانون اس لحاظ سے امتیازی ہے۔ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بینچ کے سربراہ ہیں۔
بینچ میں شامل جسٹس شاکراللہ جان نے کہا کہ توہین عدالت کا نیا قانون اس لحاظ سے امتیازی قانون ہے کہ اس میں ایک خاص طبقے کو مخصوص مراعات دی جا رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے سرکاری وکیل عبدالشکور پراچہ سے کہا کہ آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ توہین عدالت کی دفعہ 12 غلط ہے اس کے بعد بھی وفاقی حکومت کیسے کہہ سکتی ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ نہیں ہے۔
آپ نے تسلیم کر لیا ہے کہ نئے قانون میں استثنی دینے والی شق درست نہیں۔ اس قانون کو صرف عام افراد نے نہیں بلکہ پاکستان بارکونسل نے بھی یہ قانون چیلنج کیا ہے۔عبدالشکور کا کہنا تھا کہ کبھی میڈیا والے کسی کو بڑا بناتے ہیں،کبھی جج ،کبھی جنرل اور کبھی حکمران کسی کو بڑا بنا دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اختیارات سے تجاوز ہو تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ایک شعرکا معروف مصرعہ پڑھتے ہوئے کہا کہ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے. چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ معاملہ عوامی اہیت کا حامل نہیں تو پھر توہین عدالت قانون کے تحت ہی سابق وزیراعظم گیلانی نااہل ہوئے۔
اگر وفاقی حکومت یہ کہے کہ نئے قانون میں کوئی خرابی نہیں ہے تویہ درست نہیں۔ ہم نے قانون کی عمل داری میں بہت سے مثالیں قائم کی ہیں۔ وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے کہا کہ عدلیہ نے ریمارکس دیے تو اپوزیشن لیڈر نے شور مچا دیا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے اپنا اظہارخیال کیا۔شور مچانے والی بات مناسب نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آمریت کو کندھا نہ دیا جائے تو جمہوریت چلتی رہے گی۔