ہم نے تو گیلانی صاحب کے انگلینڈ کے دورے پر ہی صاف کہہ دیا تھا کہ یہ اُن کا بطور وزیرِ اعظم آخری دورہ ہے جس میں وہ اہلِ خانہ کے ساتھ مِل کر جی بھر کے ہلہ گُلا اور خریداری کریں گے کیونکہ میرے خیال میں یہ بُجھتے دیئے کی آخری لَو تھی ۔چنانچہ وہی ہوا جو ہم نے لکھا تھا ۔لیکن ہم ٹھہرے بے نام ، اناڑی لکھاری اس لئے ہماری بھلا کون سُنتا ہے البتہ اگر ہمیں بھی ملک ریاض کی طرف سے کچھ عنایت ہو جاتا تو ہمارا شمار بھی بڑے لکھاریوں میں ہونے لگتا لیکن ”یہ نہ تھی ہماری قسمت” ۔ اس لئے اب طوہاََ و کر ہاََ یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”جو دے اُس کا بھلا ، جو نہ دے اُس کا بھی بھلا”۔اب جب کہ گیلانی صاحب ”میکے ” سدھار گئے تو اُن کے بارے میں کیا عرض کروں کہ جب کوئی مقابل ہی نہ ہو تو ”یُدھ”میں کیا مزہ۔اس لئے یہی دُعا کر سکتی ہوں کہ اللہ ”گدی نشیں”کی گدی سلامت رکھے اور اُنہیں ”تعویز گنڈے ” میں دِن دُگنی رات چوگنی ترقی دے کہ اُن کے لئے یہی ایک روزن باقی بچا ہے جہاں سے اُمید کی کوئی کرن نظر آ سکتی ہے۔
Asif ali zardari
ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ ”قُربان گاہِ زرداری” کی بھینٹ چڑھنے والے ہمیشہ قصۂ پارینہ بن جاتے ہیں ۔ ذو الفقار مرزا کو ایم کیو ایم کو خوش کرنے کے لئے قُربان کیاگیا اور بابر اعوان کو اعتزاز احسن کو خوش کرنے کے لئے ۔اہلِ دانش یہ سوال کر سکتے ہیں کہ گیلانی صاحب کی قُربانی کیوں دی گئی؟۔کیا اعلیٰ عدلیہ یا نواز لیگ کو خوش کرنے کے لئے ؟۔جی نہیں ! گیلانی صاحب کی قربانی زرداری صاحب نے اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے دی کیونکہ زرداری صاحب کی جائیداد کے وارث تو اُن کے بچے ہی ہیں جن کی جائیداد پر اعلیٰ عدلیہ ”غاصبانہ” قبضہ جمانے کی فکر میں ہے ۔
بہرحال اب گیلانی صاحب کو چاہیے کہ ایوانِ صدر سے کوئی آس ، کوئی اُمید نہ رکھیں اور چونکہ اب وہ فارغ ہیں اور راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے اس لئے اب ”آ رہی تھی چاہِ یوسف سے صدا” جیسی ایک اور کتاب لکھیں جس کا مناسب ترین نام”مرے تھے جن کے لئے ” ہوسکتا ہے۔اُس کے پہلے صفحے پر میری فرمائش پر یہ شعر ضرور لکھیں ساڈے کولوں سوہنا مُکھڑا لُوکان لئی سجناں نے بوئے اگے چِک تان لئی اگرسابقہ پی ایم صاحب جنہیں سپریم کورٹ نے Peon بنا کے رکھ دیا ہے ، کو آپ بیتی لکھنے میں کوئی مسٔلہ درپیش ہو تو میری خدمات حاضر ہیں ۔اگر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر شاعری میں اُستاد ابراہیم ذوق سے اصلاح لے لیا کرتے تھے تو ہم کوئی ذوق سے کم ہیں ۔
Supreme Court
بِلا شبہ اعلیٰ عدلیہ نے تاریخی فیصلہ دے کر ”میزانِ عدل” کے پائے مضبوط کئے ہیں وگرنہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم تو یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ انتہائی محترم سپریم کورٹ بھی ”ڈنگ ٹپاؤ” مہم پہ نکلی ہوئی ہے اور چوہدری شجاعت حسین کے ”مٹی پاؤ” فارمولے پر من و عن عمل کر رہی ہے لیکن آج کے فیصلے کے بعد نہاں خانۂ دِل سے بار بار یہ صدا بُلند ہو رہی ہے کہ مرحبا عدلیہ ، مرحبا عدلیہ ۔ اب چونکہ قوم کی آس ایک دفعہ پھر بندھ گئی ہے اس لئے دست بستہ عرض ہے کہ کرپشن کے بے شمارPending کیسز کے فیصلے بھی اُسی سُرعت سے کر دیجئے جس سُرعت سے ”سپیکر ریفرنس کیس” کا فیصلہ کیا ہے ۔سیانے کہتے ہیں کہ عدل میں تاخیر ، عدل کے قتل کے مترادف ہے ۔ہم بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ ”عصائے افتخار” اس مجبور و مقہور قوم کے 8500 ارب روپئے اُگلوانے میں بھی انشا اللہ کامیاب ہو جائے گا جو اِس حکومت کی چار سالہ کرپشن کی نظر ہو گئے ۔
عدلیہ کے فیصلے کے بعد محترم اعتزاز احسن صاحب پر بہت سی انگلیاں اُٹھ رہی ہیں اور سب سے دلچسپ تو بابر اعوان صاحب کا یہ حاسدانہ تبصرہ ہے کہ ”سو روپئے کا وکیل کروگے تو یہی انجام ہو گا” لیکن اس میں بھلا اعتزاز بیچارے کا کیا قصور ؟۔اُنہوں نے تو سات رکنی بنچ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کیلئے 270 صفحات پر مشتمل اپیل تیار کر رکھی تھی اور اب بھی تین رُکنی بنچ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کے لئے راتو ں رات 250 صفحات پر مشتمل اپیل تیار کر لی لیکن ”حکمِ حاکم مرگِ مفاجات” کے مصداق دونوں اپیلیں دھری کی دھری رہ گئیں اور حاکمانِ وقت کی طرف سے اجازت ہی نہ ملی۔
اگر اُنہیں اپیل کرنے کا موقع مل جاتا تو وہ یقیناََ اعلیٰ عدلیہ سمیت سبھی کے چھکے چھُڑاتے ہوئے یہ ثابت کر دیتے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے میں ہی عافیت ہے وگرنہ یہ جانب دار عدلیہ نواز لیگ کے اشارے پر اگلے کئی وزرائے اعظم کا ”دھڑن تختہ” کرنے پر تُلی بیٹھی ہے (آج اُنہوں نے ایک دفعہ پھر اپنا پُرانا بیان دُہرایا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے میں کوئی ہرج نہیں)۔وزرائے اعظم سے یاد آیا کہ پتہ نہیں اب زرداری صاحب نے قُربانی کے لئے اگلا کون سا ”بکرا” یا ”بکری” تیار کر رکھی ہے ۔نام تو بہت سے ہیں لیکن سب سے مضبوط ”بکرے” جنابِ احمد مختار تھے جنہوں نے شاہ محمود قریشی کی طرح کافی عرصے سے حلف اُٹھانے کے لئے شیروانی بھی سلوا رکھی ہے لیکن اُن پر چوہدری شجاعت حسین پھڈا ڈال کے بیٹھ گئے اس لئے اب اُن کی جگہ مخدوم شہاب الدین نے لے لی ہے ۔
PPPakistan
ویسے تو محترمہ حنا رُبانی کھر کا نام بھی آ رہا تھا لیکن شاید وہ اپنی کمزور صحت کے ہاتھوں مار کھا گئیں ۔مخدوب شہاب الدین کے بارے میں شنید ہے کہ جب اُن کے کسی عزیز نے یہ سوال کیا کہ وہ کس لئے عدلیہ کی بھینٹ چڑھنا چاہتے ہیں تو اُنہوں نے مُسکرا کر جواب دیا کہ پیپلز پارٹی کا تو اب دور دور تک بر سرِ اقتدار آنے کا کوئی امکان نہیں اس لئے اگر اُنہیں وزارتِ عظمیٰ مل جاتی ہے تو نا اہلی کے بعد اُنہیں تا حیات سابقہ وزیرِ اعظم کی مراعات اور پروٹو کول تو ایسے ہی ملتا رہے گا جیسے سابقہ اڑھائی ماہ کے وزیرِ اعظم چوہدری شجاعت حسین کو مل رہا ہے ۔واقعی عمر کے اس حصے میں اگر ایسی پنشن مل جائے تو سبحان اللہ ۔
معزز قارئین ! بات ارسلان افتخار کو دام میں لا کر جنابِ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے شروع ہوئی ۔منصوبہ تو یہی تھا کہ چیف صاحب کو اتنا بدنام کر دیا جائے کہ وہ خود ہی مستعفی ہو جائیں لیکن صیادخود اپنے ہی دام میں گرفتار ہو گیا ۔ساری تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور ربّ ِ کردگار نے چیف صاحب کو اس تیسرے ”یُدھ ” میں بھی سُرخ رو کر دیا ۔یہ دینِ مبیں کا فیصلہ ہے جسے بہرحال سچ ہونا ہی تھا کہ ”حق آ گیا اور باطل مٹ گیا ، تحقیق کہ باطل کو مٹنا ہی تھا”۔قوم کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوا اور رُسوائیاں کس کا مقدر بنیں ، سبھی جانتے ہیں ۔ تحریر: پروفیسر رفعت مظہر prof_riffat_mazhar@hotmail.com