تحریر : شہزاد حسین بھٹی مضر صحت گوشت کی فروخت انتہائی شرم ناک سماجی رویہ ہے ۔ایسا گوشت کھانے سے لوگوں میں معدے ،جگر سمیت سنگین نوعیت کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔لوگ گوشت صحت مند زندگی کے لیئے کھاتے ہیں جبکہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ مردہ، بیمار، لاغر اور حرام جانوروں کا مضرصحت گوشت انکی صحت اور زندگیو ں کے لیئے خطرہ بن جاتا ہے ۔افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ کچھ ماہ سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباداور صوبہ پنجاب میں بیمار لاغر اورمردہ جانوروں کے گوشت جن میں گدھے کا گوشت بھی شامل ہے کی فروخت کی متعدد شکایات اخبارات کی سر خیوں کی زینت بن رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ان حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت کا دھندہ بڑی ڈھٹائی سے علاقہ پولیس اور اعلیٰ حکام کی ملی بھگت سے جاری ہے۔
محکمہ صحت اور لائیو سٹاک کا عملہ لسی پی کر گہر ی نیند سو رہا ہے ۔شہری سراپا احتجاج ہیں لیکن انکی کوئی شنوائی نہیںہے اور شہری اپنی دانست میں حرام گوشت کھانے پر مجبورہیں ۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سلاٹر ھاؤس کے عملے کی ملی بھگت اور بر وقت بھتہ ملنے کی وجہ سے ان سلاٹر ھاؤس کے افسران نے ان قصائیوں کو “تصدیقی مہر”عطا کر رکھی ہے جو قصائی خود ہی گوشت اپنی دکانوں پربیچنے کے لیئے لٹکا کر لگاتے ہیں اور اسکے عوض “سلاٹر ھاؤس”کے عملے کو فی مہر دو سو روپے فی جانور بطور رشوت عطا کیئے جاتے ہیں۔
لاہور میں گذشتہ دنوں عوامی شکایات کے بذریعہ اخبارات منظر عام پر آنے کے بعد محکمہ لائیو سٹاک کی ٹیم نے صوبائی دارالحکومت کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں ایک غیر قانونی مذبحہ خانے پر چھاپہ مارکر 38بیمار بکروں کے گوشت کو قبضے میں لے لیا ۔چھاپہ مار ٹیم کے مطابق غیر قانونی مذبحہ خانے پر چھاپہ مارا گیا تو اس وقت وہاں چودہ بیمار بکرے بھی موجود تھے ۔حسب روائیت ذبح خانے کا مالک موقع سے فرار ہو گیا جبکہ وہاں موجود پانچ افراد کو گرفتار کرکے انکے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
Donkey Meat
یہ معاملہ لاہور اور اسکے مضافات تک محدود نہیں بلکہ پنجاب کے تقریبا ً تما م اضلاع سے اس قسم کی شکایات سامنے آرہی ہیں جبکہ اسلام آباد اور اسکے مضافات بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔شہروں کے تمام ہر چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں مردہ برائلر سمیت بیمار ،لاغر مردہ اور حرام گوشت کی فروخت دھڑلے سے جاری ہے ۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ نومولود بچھڑوں کاگوشت بھی بکرے کا گوشت قرار دیکر مکس کر کے فروخت کیا جا رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان ہوٹلوں اور باربی کیو چینوں میں کھانے ،برگر،شوارما اور باربی کیو کھانے والوں کی بڑی تعداد خطر ناک بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے ۔دوسری طرف لاہور ،فیصل آباد ،گوجرنوالہ ،ملتان،بہاولپور،اٹک اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں مضر صحت گوشت کی جتنی مقدار فروخت ہوتی ہے اس کہیں ذیادہ چھوٹے شہروں ،مضافاتی علاقوں ،قصبات اور دیہاتوں میں خراب گوشت فروخت ہو رہا ہے۔
گذشتہ دنوں لاہور ،گوجرنوالہ، حسن ابدال اورواہ کینٹ میں گدھوںکے گوشت کی فروخت کی خبریں بھی سامنے آئیںجنکے مطابق کھلے میدانوں سے گدھے کے سر اور ڈھانچے برآمد ہوئے ۔گدھے کے گوشت کی فروخت میں اچانک تیزی سے گدھے کی قیمت فروخت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے ۔جبکہ قصائی حضرات یہ گوشت مارکیٹ ریٹ سے تھوڑے کم ریٹ پر فروخت کرتے ہیں جسکی وجہ سے گاہکوں کا انکی دکانوں پر تانا بانا رہتاہے ۔دیگر وجوہات کے علاوہ گدھے کے گوشت کی فروخت کی ایک بڑی وجہ ملک میں پائی جانے والی غربت ہے جسکی وجہ سے غریب والدین جان بوجھ کر اپنی اولاد کو سسکتا نہیں دیکھ سکتے اور وہ یہ حرام گوشت خریدنے اور پکانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے حکومت کو اس کی کوئی فکر نہ ہے وہ تو صرف عوام کی خدمت کر رہے ہیں ۔اگرچہ گدھے کا گوشت فروخت کرنے والے کچھ قصائیوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں لیکن ہمارے قانونی نظام میں سقم کی وجہ سے ان کا بال بھی بھیگا نہیں ہو تا۔
وفاقی دارالحکومت کے گیٹ وے روات اور اس کے ملحقہ علاقوں میں مردہ اور حرام گوشت کی فروخت کے یکے بعد دیگرے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں مگر ہماری انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی یوں معلوم ہوتاہے کہ شاید وہ خود اس کورکھ دھندے میں ملوث ہیں۔ایک دلچسپ وا قعہ یہاںقائیرین کے گوش گزارکرنا چاہوں گا کہ روات میں ایک قصائی جس کی خبریں میڈٰیا میں آچکی ہیں اس کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ کسی بھی بھینسوں کے باڑے میں جاتا اور ان سے قیمت فروخت کی بابت دریافت کرتا اور فرض کریں کہ ایک بھینس کی قیمت نوے ہزار ہے تو وہ اس کے دام چالیس ہزار لگاتا اور کافی بحث مباحثے کے بعدجب مالکان تھک ہار کر آگے پیچھے ہو جاتے اور وہ موقع پاکر قیمت لگائی گئی گائے یا بھینس کو پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی ویسٹ کوٹ کی جیب سے آٹے کا زہر آلود پیڑا چپکے سے گائے یا بھینس کو کھلا دیتا اور جاتے وقت باڑے کے مالک یا ملازم کواپنا فون نمبر دے جاتا کہ اگرچہ آپ کا اور ہمارا سودا نہ ہو سکا مگر اس کے باوجود آپ لوگ میرا نمبر اپنے پاس رکھیں اور اگر کوئی گائے بھینس یا بچھڑا مر جائے تو مجھے فون کر دینا میں اپنی سوزوکی میں اسے ڈال کر لے جاؤں گا اور کھال اتار کر گوشت پھینک دوں گا وہ کھا ل بیچ کر میں کچھ خطیر رقم کما لوں گا۔
Dead Cow
اگلے روز جب صبح سویرے باڑے کے ملازمین نے دیکھا تو وہی گائے یا بھینس مر چکی تھی جسے وہ مزکورہ قصائی پیار سے ہاتھ پھیر رہا تھا باڑے کے مالکان نے قصائی کو دیئے گئے نمبر پر فون کیا تو قصائی آناً فاناً وہاں گاڑی لے کر پہنچ گیا گویا وہ اسی انتظار میں تھا ۔اس نے وہ مردہ گائے اٹھوائی اور وہاں سے چلتا بنا ۔باڑے کے مالکان اورشرفاء نے اس کا پیچھا کیا تو وہ اس گائے کو ویرانے میں لے گیا اور وہاں اسے ذبح کیا ۔پائے دھڑ سے الگ کیئے گوشت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے لٹکانے کے لیئے ہینگر بنائے اور پیٹ چاک کر کے کلیجی ،دل اور پھیپھڑے الگ نکال کر دھوئے اور گاڑی پر لوڈ کر رہا تھا کہ تاک میں بیٹھے شرفاء اور باڑے کے مالکان نے اسے دھر لیا ۔بات پولیس تک پہنچی تو گائے کے بدلے گائے دینے کامعاہدہ ہوا اگلے روز پھر اسی طرح کی واردات وقوع پذیر ہو گئی اور کچھ لے کچھ دے کے اصول کے تحت پولیس چوکی سہالہ میں معاملہ ٹھپ ہو گیا ۔میڈٰیا میں مردہ گوشت کے فروخت کی خبروں کی وجہ سے اہل علاقہ میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کہیں یہ بھی حرام اور مردہ گوشت و نہیں کھا رہے ؟
حال یہ ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کے تحت سلاٹر ھاؤس سے لاکرحلال گوشت فروخت کرنے والے قصائیوں کا کاروبار چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مضر صحت گوشت فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کے ساتھ سا تھ اسلام آباد اور صوبہ پنجاب میں ہنگامی بنیادوں پر لوگوں کو اس سنگین معاملے سے آگاہ کیا جائے ۔متعلقہ علاقوں میں قائم سلاٹر ھاؤسوں کی کارکردگی کا ازسر نو جائزہ لیا جائے کیونکہ ان کی کارکردگی بھی اب سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
معاملہ مردہ یا بیمار جانور کے گوشت کا کاہو یا گوشت میں پانی ملانے کے مکروہ دھندے کا اس کے خلاف عوامی تعاون سے سخت گیر کاروائی کی جانی چاہیے اور اس معاملے میں قصاب حضرات کو بھی حکومت سے بھر پور تعاون کرنا چاہیے کیونکہ ایسے سماجی دشمن عناصر پر ہاتھ ڈالنے کے لیئے عوام ،حکومت اور قصاب تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا ۔ایسے سماج دشمنوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا جو چند ٹکوں کی خاطر لوگوں کی جان اور صحت سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔