اکتوبر1923میں ترکیہ میں خلافت ختم کرنے اور ملک کو جمہوریہ قرار دینے کا اعلان ہوا اور کمال اتا ترک اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔
مصطفی کمال سالونیکا کے متوسط الحال خاندان میں پیداہوئے۔ سات برس کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ سالونیکا اور مناستیر کے کیڈٹ سکولوں میں تعلیم پائی اور 1905 میں وہاں سے سٹاف کیپٹن بن کر نکلے۔ طالب علمی کے ایام میں ہی ایک منجھے ہوئے مقرر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔
استنبول کے دوران قیام میں خلیفہ عبدالحمید کی حکومت کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لینے پر کچھ عرصہ قید رہے۔ جیل سے رہا ہوئے تو فوجی ملازمت اختیار کی اور دمشق میں پانچویں فوج کے ہیڈکوارٹر میں متعین ہوئے۔
اس دوران میں خفیہ تنظیم مجلس اتحاد و ترقی سے ان کا رابطہ قائم ہوا۔ اور وہ نوجوان ترک رہنمائوں سے مل کر ترکیہ کی نشا ثانیہ کے لیے کام کرنے لگے۔ 1908 کے انقلاب ترکیہ کے بعد کچھ عرصے کے لیے سیاسیات سے علیحدگی اختیار کر لی۔
جنگ اطالیہ اور جنگ بلقان میں مختلف محاذوں پر فوجی خدمات سرانجام دیں۔ اور اپنی حاضر دماغی اور جرات کے سبب شہرت حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو صوفیہ میں ملٹری اتاشی کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کی درخواست پر انھیں جنگی خدمات سپرد کی گئیں۔
انھوں نے 1915 میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے خلاف آبنائے فاسفورس کی کامیاب مدافعت کی۔ اس پر انھیں جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ 1916 میں روسی فوج کو شکست دے کر ترکی کا مقبوضہ علاقہ آزاد کرا لیا۔
5جولائی 1917 کو ساتویں فوج کے کمانڈر مقرر ہوئے۔ 30 اکتوبر 1918کو معاہدہ امن پر دستخط ہوگئے جس کے بعد ساتویں فوج توڑ دی گئی اورمصطفے کمال پاشا واپس استنبول بلا لیے گئے۔ اس وقت خلیفہ وحید الدین سریر آرائے سلطنت تھا ملک میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی۔ سلطان وحید الدین کو ان کے عزائم کا علم نہ تھا۔
اس نے انھیں نویں فوج کا انسپکٹر جنرل مقرر کر دیا۔ جس کا کام باقی ماندہ فوج سے ہتھیار واپس لینا تھا۔ لیکن انھوں نے اس کے برعکس تحریک مقادمت کی تنظیم شروع کر دی۔ انھوں نے اس تحریک کے دوسرے رہنمائوں سے رابطہ قائم کیا اور مادر وطن کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہوگئے۔ اسی دوران میں ان کی قیادت میں متوازی عارضی حکومت قائم ہوگئی۔
1920 میں اتاترک انگورہ میں ترکی کی پہلی اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے۔ اور پھر 1921 میں ان کی قیادت میں ترکوں نے یونانیوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ جنھوں نے ایشیائے کوچک کے بہت بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ایک سال کے اندر اندر یونانی فوج ترکی کی سرحدوں سے باہر نکال دی گئی۔
ترکوں اور انگریزوں کے درمیان براہ راست جنگ چھڑ جانیکا خطرہ پیدا ہوگیا۔ لیکن کمال اتاترک نے اپنی فراست سے یہ خطرہ ختم کر دیا۔ اکتوبر1923میں ترکیہ میں خلافت ختم کرنے اور ملک کو جمہوریہ قرار دینے کا اعلان ہوا اور کمال اتا ترک اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی دوررس اصلاحات نافذ کیں اور ترکیہ بڑی تیزی سے شاہراہ ترقی پر قدم بڑھانے لگا۔ 1934 میں قوم کی طرف سے انھیں اتاترک بابائے ترک کا لقب دیا گیا۔