چار اپریل ! پاکستان کی تاریخ میں ایک خاص مقام اور اہمیت رکھتا ہے جس سے کوئی محب وطن اور ذی شعور شہری انکار نہیں کرسکتا ، یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹوشہید وہ شخصیت ہیں جو سامراج کے ذہنوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا کیونکہ استحصالی قوتوں کو کسی صورت بھی عوامی حقوق کی علمبردار شخصیت کا وجود ہرگز برداشت نہ تھا ، زوالفقا ر علی بھٹو شہید 20صدی میں عوامی سیاست پر انتہائی گہرا اثر رکھنے والی شخصیات میں سے ایک ہیں یہ وہ عظیم عالمی لیڈر تھے جنہوں نے استحصال زدہ اور ظلم کی چکی میں پسنے والی قوم کو اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے احتجاج کا راستہ اور بغاوت کا سلیقہ عطا کیا ملکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے وہ سلامتی کونسل میں مظلوم کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حصول کیلئے مجسم احتجاج بن گئے اور ان کا سلامتی کونسل میں گونجنے والا ایک ایک لفظ تاریخ کے صفحات میں سنہری حرو ف میں لکھا جاچکا ہے ، سر شاہنواز بھٹو اور لیڈی خورشید بھٹو کے ہاں 5جنوری 1928ء کو پیدا ہونیوالے ذوالفقار علی بھٹو کا نام دنیا بھر کے غریب عوام کے اذہان و قلوب میں زندہ و جاوید ہے۔
آج مسلم امہ نازک موڑ سے گزر رہی ہے عراق، افغانستان، فلسطین اور کشمیر میں قتل عام جاری ہے آج عالم اسلام کو ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر کی تلاش ہے ذوالفقار علی بھٹو انتہائی اعلیٰ درجے کے دانشور تھے پاکستان کو معتدل ملک بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو نے راہگزار وقت پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں ان کے کارناموں میں 1973ء کے آئین کے شملہ سمجھوتہ کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے لمبے عرصہ کیلئے امن قائم رہا ایک جمہوری معاشرہ کی تعمیر کیلئے سماجی تبدیلیاں، غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی، نیوکلیئر پروگرام اور ملک میں سماجی و معاشی و فوجی اصلاحات کا تانہ بانہ شامل ہے بطور وزیر خارجہ دوماہ بعد ہی انہوں نے 2مار چ 1963 ء کو پاک چین سرحدی معاہدہ کیا جس کی بدولت پاکستان کو ساڑھے سات سو مربعہ میل کا علاقہ حاصل ہوا جو چین کی زیر نگرانی تھا ذوالفقار علی بھٹو کی زہنی استعداد نہایت منفرد تھی جب ذوالفقار علی بھٹو کی امریکہ کے صدر جان ایف کینڈی سے وائٹ ہائوس میں ملاقات ہوئی توکینڈی بھٹو کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا اور اس نے بھٹو سے کہا کہ اگر آپ امریکی ہوتے تو میری کابینہ کا حصہ ہوتے جس پر بھٹو صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ اگر میں امریکی ہوتا تو آپ کی جگہ ہوتا، کینڈی نے بھٹوصاحب کے اس جواب پر زور دار قہقہہ لگایا ، 1963تا 1970قائد اعظم کے بعد ملکی تاریخ کے عظیم لیڈر ذو الفقار علی بھٹو کا عرصہ ہے جن کی شخصیت سے واضح ہوتا ہے کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے سیاسی وارث تھے قائد اعظم نے کشمیر کو بھارتی تسلط سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کی مگر ان تمام کوششوں پر انگریز کمانڈنٹ ا ن چیف نے پانی پھیر دیا ذوالفقار علی بھٹو اسی طرح کشمیر کے معاملہ پر ڈٹے رہے اور ایوب کی کابینہ سے اس وقت مستعفی ہو ئے کہ جب ایوب خان سے 1965ء کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند پر لعل بہادر شاستری کے ساتھ ملکر دستخط کئے جس میں کشمیریوں کے حق رائے دہی کو خارج کردیا گیا۔
ایوب خان کی کابینہ چھوڑنے سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے 16مارچ 1966ء میں قومی اسمبلی کے فلور پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک عظیم نظریہ ہے صرف سندھ کے راہگزاروں یا بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں یا پنجاب کے سرسبز و شاداب میدانوں یا غیور پٹھانوں کی سرزمین ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عظیم کرم ہے جو تاریخ کے قلم سے باہر آنے والا ایک انقلاب ہے ، ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں سیاست کی لغت کو تبدیل کردیا انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ذریعے جرات و بہادری اور نئے حوصلہ کا پیغام دیا وہ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر کھیتوں اور فیکٹریوں میں لے آئے۔
انہوں نے طالبعلموں اور دانشوروں کے ساتھ ملکر کام کیا پارٹی اقتدارکی جدوجہد کیلئے ان کی تقاریر سیاسی افق پر روشنی کی کرن کی حیثیت رکھتی تھیں اسلامی سوشل ازم پاکستان پیپلز پارٹی کا پیغام تھا روٹی ، کپڑا اور مکان پی پی پی کا بنیادی پیغام بن گیا ، 20دسمبر 1970ء کو انتقال اقتدارکے موقع پر ذوالفقار علی بھٹو نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ہمیں چھوٹے چھوٹے ٹکروں کو جمع کرنے ایک نیا پاکستان بنانا ہے جس کا تصورقائد اعظم اور علامہ محمد اقبال نے دیا تھاپاکستان نے 1973ء کی جنگ میں اپنا علاقہ گنوادیا تھا ، بھارت نے 90ہزار جنگی قیدیوں کو بھارتی کیمپوں میں مقید رکھا ہوا تھا جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے کمال سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کا علاقہ اور جنگی قیدیوں کی واپسی اپنے کشمیری موقف سے ہٹے بغیر حاصل کرکے بھرپور سیاسی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ۔
دو جولائی 1972ء کو طے پانے والا شملہ معاہدہ وقت کا امتحان تھا ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کیلئے مستقل وفاقی و جمہوری آئین تشکیل دینے کا تہیہ کیا ماضی میں بنیادی ایشوز نظر انداز ہوئے تھے جن میں اسلام میں ریاست کا کردار ، صوبائی خود مختاری اور صدر و وزیر اعظم کے اختیارات ک تقسیم شامل تھی ہم یہ بھی کیسے بھول سکتے ہیں کہ تاریخ کے وہ بہترین لمحات تھے کہ جب 38ملکوں کے سربراہان 1975ء کے موسم بہار میں لاہور میں اکھٹے ہوئے کانفرنس کے دونوں چیئرمین شاہ فیصل اور میزبان ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جانیں مسلم امہ کے اتحاد کو قائم کرنے میں قربان کیں کانفرنس میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ اب تیسری دنیا امیر ملکوں کے شانہ بشانہ اقتصادی معاملات میں شرکت کرسکتی ہے۔
تیسری دنیا اور عالم اسلام دونوں کو ذوالفقار علی بھٹو جیسا ترجمان میسر آیا انہو ں نے ہر مسلمان کا سر فخر سے بلند کردیا تھا ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے عوام کو جمہوریت سے روشناس کروایا اور ان کے دلوں میں جمہوریت کی شمع روشن کی ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی دی اور کامرہ میں ایرونائیٹکل فیکٹری بنائی انہوں نے ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا بنایا اور پاکستانی فوج کا مورال بلند کیا ، ایمبسیڈر بائی روڈ نے 1976ء میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں گہری دلچسپی لی جبکہ کیسنجر نے دھمکی دی کہ وزیر اعظم پاکستان کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی ،5جنوری 1977ء کے مارشل لاء کے بعد پاکستان خو ف و دہشت کی ایک سیاہ رات میں داخل ہو گیا لاہور کے عوام نے 19اگست 1977کا نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سابق صدر ضیاء الحق 90دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کے اعلان اور وعدے سے منحرف ہو گئے اور ایک متنازعہ الزام کے تحت قتل کروانے کے درپے ہوئے تاریخ گواہ ہے سپریم کورٹ کے 9میں سے 5جج اس بات کے حق میں تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو بے گناہ ہے۔
چار اپریل ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا ساری دنیا حیرت زدہ رہ گئی اور بھٹو پھانسی کے پھندے تک جا پہنچے ، ساری دنیا اپنے عظیم لیڈر کے بچھڑ جانے پر افسردہ و حیرت زدہ تھی ، ملکی و بین الاقوامی سطح پر ان کی پھانسی کی شدید مذمت کی گئی ذوالفقار علی بھٹو تاریخ میں ان عظیم لوگو ں کی صف میں کھڑے ہیں جنہوں نے عوامی و ملی خدمت کی تاریخ رقم کی ان کی شہادت نے دنیا کے کئی ملکوں میں آزادی کی تحریکوں کو جنم دیا ذوالفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے، تاریخ کے طالبعلم کی حیثیت سے وہ جانتے تھے کہ ہمیشہ کی زندگی مقاصد کیلئے قربانیاں دینے والوں کے حصہ میں آتی ہے اور ان مقاصد میں سب سے بڑا مقصد ظلم و جبر سے انسانوں کو آزادی دلانا ہے ذوالفقار علی بھٹو شہید کا ورثہ یہی ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کی خاطر اپنا لہو دیکر شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔تحریر: ساحر قریشی