آج کافی اخبارات میں چیف الیکشن کمشن فخر الدین جی ابراہیم کا بیان لگا کہ ملک میں تبدیلی عوام ووٹ سے لائیں اگر بیلٹ نہ چلا تو بلٹ چلے گا ان کا بیان پڑھ کر میں سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ ملک میں تبدیلی کیسے لائی جا سکتی ہے اکثر عوام کا خیال کہ فلان پارٹی ہماری نجات دہندہ ہے یا فلان پارٹی مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے پیپلز پارٹی کو ہی لے لیں اب عوام اس کی برائیوں کو گن رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن بھی اقتدار میں رہ چکی ہے جماعت اسلامی تحریک انصاف اور کئی چھوٹی پارٹیاں ابھی تک اقتدار میں نہیں پہنچ سکیں مگر ان کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں تبدیلی لائیں گیان کی پارٹیوں میں کون لوگ ہیں جاگیردار اور موجودہ یا سابقہ ایم پی ایز یا ایم این ایز کے بھای بیٹے وغیرہ کافی عرصہ قبل عوام کو یہ تاثر دیا گیا کہ عمران خان ملک میں تبدیلی لائے گا اس کی پارٹی کا طوطی ملک میں بولنے لگا ہمارے محترم لیڈران جن کی بڑی تعداد مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے تھی پرواز کر کے ٹحریک انصاف کے شجر پر بیٹھنا شروع ہو گئے کچھ کو جگہ ملک اور کچھ نے بیانات کے ذریعے یہ باور کرا رہے ہیں کہ کہ وہ اب تک تحریک انصاف کے پیڑ پر ہی بیٹھے ہیں مگر ان کی باز جیسی نظریں کسی اور پیڑ کی تلاش کر رہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں تبدیلی کیسے لاہیں اب ہمارے پاس تین پارٹیاں ہیں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن تو اقتدار میں آچکی ہیں اور عوام ان سے واقف بھی ہیں اب تحریک انصاف کو لیں جس کے سربراہ یہ تو کہ رہے ہیں کہ وہ کہ ملک میںتبدیلی لائیں گے مان لیا کہ ان کے پاس اللہ دین کا چراغ ہے جو باستھ سالوں کا گند اپنے دور اقتدار میں صاف کر لیں گے ان کی جماعت میں شامل لوگ بھی روایئتی سیاست دان نہیں ہیں وہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ اور مارشل لاء جیسے دوروں میں اقتدار کے مزے نہیں لوٹتے رہے اب کیا پارٹیاں بسلنے سے تبدیلی آسکتی ہے ہمارے ملک میں باسٹھ سالوں سے وڈیرے پیر اور جاگیردار حکمرانی کرتے آرہے ہیں ہر دور میں انہیں کے بیٹے بھای یا انہی کے خاندان کا آدمی ایم پی ائے یا ایم این ائے بنا کبھی غریب اقتدار میں نہیں آسکا اور نہ ہی آئے گا۔
عمران ہو یا زرداری نواز شریف ہو یا کوئی ہو ان کی پارٹیوں پر قابض جاگیر دار وڈیروے غریب کو کبھی بھی اقتدار تک نہیں پہنچنے دیں گے اب ملک کی بہتری کے لئے سوچنا ہے اور ملک میں تبدیلی جو کسی حد تک ممکن ہے تو واقع ہم بیلٹ کے ذریعے تبدیلی لا سکتے ہیں وہ ایسے کہ عمران خان نواز شریف اور پیپلز پارٹی کو ایک لائن میں کھڑا کر کے جائزہ لیں ان میں کم برا کوں ہے عمران تو بلکل نیا ہے ان نئے لوگوں کو آزمانے کا وقت نہیں اور نہ ہی پاکستاں اب اس بات کا متحمل ہو سکتا ہے کہ اسے تجربہ گاہ بنا کر وقت ضائع کیا جائے پیچھے رہ گئے۔
نواز شریف اور زرداری دونوں کا اقتدار ہم دیکھ چکے ہیں پیپلز پارٹی کا حالیہ دور تاریخ کا سیاہ ترین دور ہے جس میں کریپشن لو ٹ ما ر بھک افلاس لوڈشیڈنگ مہنگائی کے سوا عوام کو کچھ نہ دے سکا روزانہ مہنگائی پیٹرول بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ شائد موجودہ حکومت کے منشور میں شامل ہے جس کی وجہ سے ملک کے عوام غربت کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں مگر حکمران بیان دے کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کا کام تو کر رہے ہیں مگر ان کی فلاح کا کوئی منصوبہ ان کی ڈائری میں موجود نہیں اب نواز شریف کے دور اقتدار کا جائزہ لیں تو ان کے اقتدار میں ملک کو آئی ایم ایف سے چھٹکارہ ملک ملک میں ترقی ہوئی مہنگائی کاجن بھی قابو میں رہا ملک میں روزگار کے مواقع مہیا کئے گئے صنعتیں لگنا شروع ہوئیں۔
Nawaz Sharif Zardari
موٹر وئے جیسا منصوبہ پایا تکمیل تک پہنچا جس پر تمام لاگت کورین کنپنی نے کی اور اس کا معاوضہ ٹیکس وصول کر کے پورا کیا ملک کا کوئی پیسہ صرف نہیں ہوا پشاور اسلام آباد لاہور اور ملتان تک اس منصوبے کو پہنچانے کا پروگرام بھی انہی کا تھا پھر انہوں نے عوامی خوہش پر ایٹمی دھماکہ کر کے ملک کا وقار بلند کیا اور ملک کو ناقابل تسخیر بنا دیا جس کی سزا انہیں یہ ملی کہ انہیں ملک بدر کرا دیا گیا افسوس یہ ہے کہ ہماری قوم نے امریکی پیٹھو کا چہرہ اس وقت پہچانا جب ہر چیز گنوا چکے تھے اب ہمارا ملک ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
عوام کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہو گا اب جائزہ تو ہم لے چکے اب عوام دیکھیں کہ کون ملک کا وفادار ہے اور کون ملک کے لئے بھلائی کر سکتا ہے الیکشن قریب ہیں عوام سوچ سمجھ کر ان لوگوں کو اقتدار میں لائیں جو واقع ملک اور عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں ورنہ ہمارے حال پر رونے والا کوئی نہیں ہو گا اللہ آپ کو ٹھیک سوچنے کی توفیق دے امین۔تحریر : ریاض احمد ملک بوچھال کلاں