ممبئی (جیوڈیسک) ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے کی حالت سنبھل نہ سکی جس کے باعث وہ آج گھر میں چل بسے۔ ذرائع کے مطابق بال ٹھاکرے گزشتہ چند ماہ سے علیل ہیں انہیں پچیس جولائی کو ممبئی کے لیلا وتی ہسپتال داخل کیا گیا لیکن چند دن بعد انہیں فارغ کر دیا گیا تھا۔ تاہم آج وہ گھر میں چل بسے وہ پھپڑوں اور جگر کے مرض میں مبتلا تھے۔ ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے کی خبر سنتے ہی ہزاروں کارکن ان کے گھر کے سامنے جمع ہو گئے۔ بال ٹھاکرے بھارتی انتہا پسند تنظیم شیوسینا کے چھیاسی سالہ ایک برہمن انتہا پرست خاندان میں پیدا ہوئے۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل وہ ایک کارٹونسٹ تھے۔
اس کی جگہ چبھتے ہوئے فکروں نے لے لی ہے۔ کارٹونسٹ کی حیثیت سے انہیں ابتدا میں کامیابی ملی لیکن جلدی ہی تنخواہ پر جھگڑا ہو جانے کی وجہ سے انہوں نے نوکری چھوڑ دی اور بمبئی سے غیر مراٹھی لوگوں کو باہر رکھنے کے لئے ایک تحریک شروع کی۔ بال ٹھاکرے نے لسانی اور مذہبی بنیادوں پر بے روزگار نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا اور 1966 میں شیو سینا قائم کی جسے مراٹھی ہندو راجہ شوا جی کے نام سے منسوب کیا گیا۔ شوا جی کو بعض مورخ مغل بادشاہوں کے خلاف جدوجہد کے علم بردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بال ٹھاکرے کے مطابق یہ تنظیم صرف مراٹھی نوجوانوں کو انصاف دلوانے کے لئے قائم کی گئی تھی۔
غیر مراٹھیوں کے خلاف ان کی تحریک نے بہت بار تشدد کا رنگ اختیار کیا۔ شو سینا میں بال ٹھاکرے کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر نہیں ہے۔ پارٹی میں تنظیمی انتخابات کی بات کرنے کی بھی حماقت کوئی نہیں کرتا۔ جن لوگوں نے آواز اٹھانے کی کوشش کی انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ ان میں چھگن بھجبل بھی شامل تھے جو مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی بھی رہے جب 1995 میں مہاراشٹر میں شیو سینا اور بی جے پی کی مخلوط حکومت بنی تو حکومت سے باہر رہنے کے باوجود تمام فیصلے بال ٹھاکرے ہی کرتے تھے اور انہوں نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ وہ ریموٹ کنٹرول سے حکومت چلاتے ہیں۔
ان کی پارٹی مرکزی حکومت میں بھی شامل رہی اور اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پر ہمیشہ دبا قائم رکھتی رہی۔ شیو سینا کے ایک رکن پارلیمنٹ کی جانب سے وزیر اعظم کے قریبی معاونین پر بدعنوانی کے الزامات پر تو مسٹر واجپئی اتنا ناراض ہوئے کہ انہوں نے استعفے کی پیش کش کر دی تھی۔ بعد میں 2005 اور 2006 میں ان کی پارٹی میں شدید اختلافات سامنے آئے اور ان کے کئی کارکن ان کی امرانہ پالیسیوں کی وجہ سے ان سے علیحدہ ہو گئے۔ حتی کہ ان کے بھتیجے نے علیحدہ ہو کر ایک نئی پارٹی بنائی۔
بال ٹھاکرے کھلم کھلا ہٹلر کو اپنا سیاسی پیشوی تسلیم کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جرمنی کے فسطائی رہنما کے بارے میں لوگ جو بھی کہیں، ہٹلر نے جو بھی کیا جرمنی کے حق میں ہی کیا۔ ان کی پوری سیاست اسی نظریہ کے ارد گرد گھومتی ہے اور اپنے مسلمان مخالف نظریہ کو وہ اسی تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کی مقبولیت میں ان کے اقلیت مخالف متنازعہ بیانات کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ قوم پرست طبقہ اس طرح کی باتیں سننا چاہتا ہے