ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کے آمدنی کے چار ذرایع ہیں۔بجلی،گیس،پیٹرول اور کرپشن۔ ان آمدنی کے چاروں ذرائع میںکرپشن ایک واحداور سب سے بڑااور ذریعہ ایسا ہے جو صدر ذرداری سمیت ہر رکن حکومت کی انفرادی کار گردگی پر منحصر ہے۔جتنا بڑا عہدہ اتنی ہی بڑی کرپشن اس میں سب سے زیادہ مزیدار بات یہ ہے کہ کرپشن کے ذریعے مال بنانے پر اس ملک میں پکڑے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔کسی اس کا عہدہ بچا لیتا ہے تو کوئی اپنے مہربانوں کے ذریعے بھاگ نکلتا ہے۔ ان معاملات میں سپُریم کورٹ بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔کیونکہ موجودہ حکمران اس کے فیصلوں کو ماننے کے لئے کسی قیمت پر تیار نہیں ہیں ۔ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرچوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ اسمبلی وزیر اعظم کے دفتر کا سما پیش کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اُن کے کہنے کا مفہوم یہ دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ حکومت کی اس وقت ملک میں کر پشن اور حکومتی پیمانے پربے ایمانی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ جس کا دفتر یہیں پر موجود ہے۔جس کی وجہ سے ” موجودہ حکومت لاج مرض کا شکار ہے ”جس کو شفا ملنا نہایت ہی دشوار امر ہے۔ وہ یہ بھی اسمبلی کے فلور پر کہتے ہوے سُنے گئے کہ اس”حکو مت کا ایجنڈا کچھ اور ہے،جو گونگی اور بہری ہوچکی ہے۔حکمرانوں کو ملک کی سلامتی کی بجائے اپنا اقتدار عزیز ہے۔تاہم ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ملک میں بجلی نہ ہونے کے باوجود آئے دن بجلی کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کیا جا رہا ہے۔پیٹرول اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ایک اور اہم نکتے پر چوہدری نثار نیاسمبلی کی تقریر میں تو جہ مبذول کرائی ہے کہ حکومت نے ایک متنازعہ ملک ہندوستان کو پسنددیدترین ملک قرار تو دیدیا ہے مگر اس میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اس معاملے کو ایوان میں لا کر منظور کراتی ۔عوام کا بھی یہ ماننا ہے کہ یہ کینسر زدہ دور ہے۔جس میں بیماریاں اور بھی بہت سی موجود ہیں۔ کون کون سی بیماری کا تذکرہ کیا جائے کہ سارا نظام ہی کینسر کے علاوہ دیگر وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔مقتدر لوگوں کی اپنی اپنی بیماریا ں اس قدر ہیں کہ جن کا شمار اور علاج کسی طرح بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ مفاد پرست حمائتی اس امِ الامرا ض حکومت سے چمٹ کر رہا سہا دم خم اور خون بھی نچوڑ لینے پر آمادہ ہیں۔عوام کی ان حکمرانوں کے تمام ٹولوں کو کوئی فکرلاحق نہیں ہے۔جن میں سے بعض لوگ تو اپنے عوام کوبند و ق کی نالی پر اٹھائے پھرتے ہیں او روہ ہی سب سے زیادہ چیخ چیخ کر عوام کے ہمدرد ہونے اور جمہوریت کے بڑے محافظ ہونے کے دعویدار ہیں۔عوم ہیں کہ آسیب زیا دہ کر دیئے گئے ہیں۔جو ان کے مظالم پر بھی گونگے اندھے اور بہرے بنا دیئے گئے ہیں۔کسی کی جان ومال عزت و آبرو کہیں محفوظ نہیں ہے۔جس کی وجہ سے عوام اپنے رب سے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعا کر تے ہیں کہ پرور دگار عالم ہمیں ان درندہ صفت رہنمائوں اور زبردستی کے مسلط ہوے نمائندوں اور ان کے پالے ہوے جانور و ں کے چنگل سے نجات دلا کہ ہم اپنی مرضی سے تیری راہ میں اپنے صدقات وخیرا ت تک نہیں دے سکتے ہیں۔ظلم پہ ظلم سہہ کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا یہ لوگ اچھے دنوں کے منتظر ہیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گذشتہ ساڑھے تین سالوں میں مسلم لیگ ن کے رہنما میاں محمد نواز شریف زرداری حکو مت کو گیدڑ بھبکیاں تو دیتے رہے تھے مگر عملی میدان میں انہوں نے زرداری حکومت سے چھٹکاراپالینے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی بھی نہیں کی۔جس کی بنا پراُن پر الزام ہے کہ اس دوران انہوں نے زرداری حکو مت کو بڑے سلیقے سے بچائے رکھا اور اپنا سیاسی نقصان خود ہی کرتے رہے۔مزید یہ کہ ہر جانب سے اُن پر فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا رہا۔اس حکمت عملی نے ن لیگ کو شدید سیاسی نقصانات پہنچائے ہیں۔ اس کا احساس ن لیگ کو آنے والے انتخابات کے بعد ہوگا۔عمران خان کے سامنے آنے اور حکومتی لوگوں کی کرپشن اورچوربازاری کے ضمن میں انہوں نے بھر پور موقف اپنا کر پاکستان کے عوام اور خاص طورپر نوجونوں اورکرپشن کے مخالفین کے دل جیت لئے ہیں ۔عمران خان ایسی قوت بن کر سامنے آرہے ہیں جو کرپشن کے سیلابوں کو بہ ظاہر بہا لیجانے کی صلاحیت کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔اسی لئے سیانے کہتے ہیں آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے….عمران خان کے بڑھتے ہوے سیلاب سے ن لیگ کو خائف ہونے کی بجائے عمران خان کے ساتھ مل کر کرپٹ حکومت کو گھر بھیجنے کی راہ تلاش کرنی چاہئے۔کیونکہ یہ ہی اس وقت بہترین حکمتِ عملی کا تقاضہ بھی ہے۔ن لیگ کو جتنا نقصان ہونا تھا سو ہو چکا مگر اب مزید نقصانات سے بچنے کے لئے عمران کو ساتھ ملا کر حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔حکمرانوں کے بغل بچے عمران خان کی شہرت سے خائف دکھائی دیتے ہیں۔اس کے ضمن میں چوہدری شجاعت کہتے دکھائی دیئے کہ عمران خان ہوا کے جھونکے کی طرح ابھرا ہے۔وہ اسی طرح زمین بوس بھی ہو جائے گا۔تاہم اس بیان کے بر عکس ہمارا گمان بھی اس ضمن میں یہ ہی ہے کہ عمران خان کچھ کرنے کی صلاحیتوں سے مزین ہیں۔کیونکہ ان کی پہلی ہی بال مخالفین کو کلین بولڈ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارا مشورہ ن لیگ اور تحریکِ انصاف دونوں جماعتوں کو یہ ہی ہے کہ اگر وہ کرپشن کے خلاف کام کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہیں تو نفع نقصان دیکھے بغیر کرپٹ لوگوں کے خلاف مل کر کام کریں۔منڈیٹ تو دونوں جماعتوں کو جتنا ملنا ہے ملے گا۔مگر شائد میرا وطن بڑی کرپشن اور برے لوگوں سے پاک ہو جائے۔یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت کرپشن کے سلسلے میں لاعلاج ہے۔ اس کا سیدھا سا نسخہ یہ ہی ہے کہ ملک کو کرپٹ حکمرانی سے ہر حال میں نجات دلائی جائے۔ورنہ ان کا آقا تو انہیں ہر کرپشن کے ساتھ مشرف کی طرح بچا لیجانے کو تیار بیٹھا ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ نواز شریف نے دل پکا کر کے آخر کارکہہ ہی دیا کہ ”جمہوری طریقے سے حکومت کی تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور بہت جلد اجتماعی استعفوں پر فیصلہ کر لیا جائے گا۔حکمراں جماعت کے کرتوتوں کی وجہ سے عوام کا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے”یہ بھی حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کرپشن کے دریا بہانے والوں نے ہر پاکستانی کو وطن عزیز میں دک کر کے رکھا ہوا ہے۔چوری چکاری میں ان میں سے کوئی بھی پیچھے رہنا نہیں چاہتا ہے۔کہیں قریبی رشتہ داروں سے وطن کی دولت لُٹوائی جا رہی ہے تو کہیں دوستوں اور جیل کے مجرم ساتھوں کو ملک کا خزانہ لوٹ کر بھاگنے کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں۔کہیں حلیفوں کے کرپشن کی پردہ پوشی کے لئے بھر پور کردار ادا کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ملک کی معیشت کو گیلانی زرداری نے مل کر دیمک کے طرح چاٹ لیا ہے۔ملک اور عوام غریبترین حکمران اور ان کے ہم نوا دولت کے انباروں پر بیٹھے ہیں۔ان تمام باتوں سے تبدیلی کی ہوئیں گردش کرتی دیکھی تو جا سکتی ہیں ۔مگر عملی شکل میں دیکھنے کیلئے عوام شدت کے ساتھ منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خور شیدshabbir4khurshid@gmail.com