اگرچہ تحریر تو سادہ ہی ہے اور دُکھی دل کے ساتھ لکھی گئی تحریر کا ”عنوان ” ہی ملفوف پیرائے کی بجائے سادہ اور عام لفظوں کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ ”میاں صاحب ، مجھے معاف کرنا” کیونکہ میں آپ کا شروع دن سے حمایتی تھا اور آپ اور آپ کی جماعت مسلم لیگ کے لیے اپنے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی کام کیا اور دیارِ غیر میں بھی آپ کی فلاسفی کو متعارف کرایا لیکن اب مجھے بوجھل دل کے ساتھ کہنا اور لکھنا پڑ رہا ہے کہ میں آپ کا حمایتی ( متوالہ) نہیں رہا اور یقیناََ اس کے ذمہ دار آپ ہی ہیں۔
میاں صاحب !وطن عزیز کی جمہوریت پسنداکثریت کے ساتھ ساتھ راقم کا بھی خیال تھا کہ آپ ہی وہ قائد ہیں کہ جو اپنی فلاسفی اور ویژن کی بنیاد پر ملکی معاملات کو احسن انداز سے چلا سکتے ہیں اور وطن عزیز کا انصرام و انتظام آپ کے ہاتھ میں ہو ،آپ پر راقم کے اعتماد کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ماضی قریب کی اسٹیبلشمنٹ جس کی قیادت کی باگ ڈور پرویزشرف کے ہاتھ میں تھی ، جنرل پرویز مشرف نے جمہوری حکومت اور بھاری مینڈیٹ پر شب خون مارا تھا اور آپ کو ذلت و رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا ، میاں صاحب !اگر آپ تھوڑی سی لچک نہ دِکھاتے اور آپ کے بیرونی دوستوں کی امداد نہ ملتی تو شاید آپ اسٹیبلشمنٹ کے جبڑوں سے باہر ہی نہ نکل سکتے ، جلا وطنی کاٹ کر جب آپ نے نعرہ لگایا کہ ”آپ اقتدار کی نہیں بلکہ اقدار کی سیاست کریں گے ”اور بعد ازاں جب آپ نے عدلیہ کی بحالی کے لیے موثر حصہ ڈالا تو مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کو آپ سے ہمدردی ہونے لگی۔
بہت سارے ہم وطنوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے موجودہ مسائل میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا بہت زیاہ حصہ ہے اور اسی تناظر میں آپ کے انٹی اسٹیبلشمنٹ نعرے میں بڑی کشش نظر آرہی تھی یہ تھا وہ پسِ منظر جس میں آپ کو پرویزمشرف کی بھر پور مخالفت اور انتخابی سر گر میوں کے لیے بہت تھوڑا وقت دیئے جانے کے با وجود عوام نے آپ کی جماعت کو بھر پور مینڈیٹ سے نوازا اور نصف پاکستان (صوبہ پنجاب ) کی حکومت آپ کے حوالے کی اور مرکز میں بھی آپ کی جماعت کے اُمید واروں کو بھاری مینڈیٹ سے نوازا اور آپ نے ساڑھے تین سال ”فرینڈلی اپوزیشن ” کا رول ادا کیا آپ کی ساڑھے چار سال کی کار کردگی دیکھ کر اُمیدوں اور توقعات کا آبگینہ کِر چی کِر چی ہو گیا ،آس یاس میں بدل گئی ، پاکستان کی غریب عوام کو آپ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں اور انہوں نے آپ کو اپنا نجات دہندہ تصور کر لیا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ آپ ہی ہیں جو ملک و قوم کی منجدھار میں پھنسی کشتی کو ساحلِ مُراد تک پہنچا سکتے ہیں مگر آپ کی چار سالہ ”کارکردگی ”نے آئندہ الیکشن میں آپ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
حالانکہ چا ہیے تو یہ تھا کہ آپ جلا وطنی کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قریہ قریہ ، بستی بستی ، گوٹھ گوٹھ ، نگر نگر ، ڈگر ڈگر ، گلی گلی اپنے وطن کی باشعور اور غیرت مند عوام کے پاس جاتے اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ستائی دُکھوں کی ماری عوام کو آگاہ کرتے کہ ”آمریت اور جمہوریت میں کیا فرق ہے ؟ ”آمریت کا شکنجہ کیا ہوتا ہے اور جمہوریت غریب عوام کو کیسے راس آتی ہے ؟لیکن میاں صاحب ! اگر آپ کی طبع ِ نازک پر گِراں نہ گزرے تو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو سوائے سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی ”عشرت گاہ”رائیونڈ سے باہر نکلنے کا وقت ہی میسر نہ ہو سکا اور آپ اپنی جماعت کے ”خوشامدی حصار ”میں گھِرے رہے جنہوں نے ہمیشہ آپ کو ”سب اچھا ہے ” کی رپورٹس دیں اور آپ بھی اُن رپورٹس پر بھروسہ کرتے رہے اور آپ کے متوالے آپ کی راہ دیکھتے رہے اور آپ جب بھی کبھی کبھار”عشرت گاہ ” سے باہر نکلتے تو غریب کارکنوں کی سماعتوں کو ہمیشہ سیکیورٹی پر مامور حفاظتی دستوں کی ”ہٹو بچو ” کی صدا ہی سُنائی دیتی رہی اور یوں آپ اپنی عوام اور کارکنوں سے دور ہوتے گئے ۔
میاں صاحب ! میری مایوسی کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ آپ نے ابھی تک نچلی سطح تک جماعتی الیکشن بھی نہیں کروائے ، اگر آپ عوام کے ساتھ مخلص ہوتے تو آپ لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ کے مذموم ارادوں سے آگاہ کرتے اور ملک کے ساتھ کھِلواڑ کرنے والوں کو تنبیہہ کرتے کہ اگر آپ (اسٹیبلشمنٹ )نے دو بارہ ملک و قوم کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی تو پاکستان کا ہر مردو جواں ، بوڑھا اور بچہ سیسہ پلائی دیوار بن جائے گا ، مسٹرزرداری سے تو پہلے بھی نیک توقعات وابستہ نہیں تھیں مگر آپ کی کارکردگی بھی حوصلہ افزائی اور خاطر خواہ نہیں رہی جس کی وجہ سے راقم نے پاکستان کی اُبھرتی ہوئی سیاسی تحریک ۔۔۔۔تحریک انصاف کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ورلڈ کپ کے ہیرو عمران خان کی شکل میں محرومیوںاور دکھوں کے مسائل میں گھری عوام کو مدتوں بعد نصیب ہوئی ہے۔
PTI Imran Khan
ا سی چیز کو دیکھتے ہوئے میں نے تحریک انصاف کی حمایت کا اہم فیصلہ کیا ہے کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت نظریاتی سیاست کی قائل ہے اور اپنے موقف پر ڈٹنے والی قیادت ہے جو 15سال پہلے موقف تھا آج بھی الحمد للہ وہی ہے بس اسی نظریے اور سوچ نے مجھے متاثر کیا ہے عمران خان نے جو کہا کر دکھایا ، ورلڈ کپ کی کامیابی سے قوم و ملک کو سرخرو کیا ، کینسر ہسپتال بنانے کا کہا اور قائم کر کے دکھا دیا اور بے آب و گیاہ علاقہ میانوالی میں ”NAMAL” یونیورسٹی قائم کر کے تعلیم کی دنیا میں ایک تاریخ رقم کر دی اور تبدیلی کا جو نعرہ لگایا ہے وہ بہت ہی متاثر کن ہے جو لوگ محض تبدیلی کے نعرے اور ملک وقوم کی قسمت بدلنے کی حقیقی معنوں میں خواہش رکھتے ہیں اُن کو چاہیے کہ تحریک انصاف کی حمایت کریں کیونکہ عمران خان نے اپنی جماعت کے اندر انتخابات شروع کراکے قوم کے دل جیت لیے ہیں۔
ہر گزرنے والا لمحہ تحریک انصاف کے لیے کامیابی اور ترقی کی نوید لے کر آرہا ہے اور اس وقت ہر با شعور پا کستانی کی زبان پر ایک ہی لفظ سنائی دے رہا ہے کہ وطن عزیز کو متبادل قیادت اللہ تعالیٰ نے عمران خان کی صورت میں عطا کر دی ہے اور عمران خان اپنی محب وطن ٹیم کے ساتھ پا کستان کو ایک با عزت اور خوددار ملک بنا نے کے لیے دن رات مصروف عمل ہے آنیوالا وقت خدمت انسانیت کے فلسفے پر عمل پیرا تحریک انصاف ہی کا ہے۔