1914 میں ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے میجر طفیل محمد نے1943 میں16 پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ اپنی بٹالین کے علاوہ شہری مسلح فورسز میں مختلف کمانڈ اور تدریسی تقرریوں پر مشتمل ایک امتیازی کیرئیر کے بعد انہیں 1958 میں کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے مشرقی پاکستان رائفلز میں تعینات کردیا گیا۔
اگست 1958 کی ابتدا میں انہیں چند بھارتی دستوں کا صفایا کرنے کا مشن سونپا گیا جو کہ لکشمی پور میں مورچہ بند تھے۔ انہوں نے رات کے وقت ایک بے خطا مارچ مکمل کیا اور7 اگست کو بھارتی چوکی کو گھیرے میں لے لیا۔ اپنے ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے دشمن سے 15 گز کے فاصلے پر پہنچ کر انہوں نے عقب سے حملہ آور پارٹی کی قیادت کی۔ جب بھارتیوں نے مشین گن سے فائر شروع کئے تو میجر طفیل اس کا نشانہ بننے والے پہلے سپاہی تھے۔ بے تحاشہ خون بہنے کی حالت میں انہوں نے ایک گرینیڈ پھینک کر دشمن کی مشین گن کو خاموش کردیا۔ ان کی زندگی کا چراغ رفتہ رفتہ دھیما پڑ رہا تھا مگر انہوں نے آپریشن کی ہدایات دینا جاری رکھا۔ جب دشمن کی دوسری مشین گن نے فائرنگ شروع کی تو میجر طفیل کے سیکنڈ ان کمانڈ اس کا نشانہ بن گئے میجر طفیل نے ایک نہایت پختہ نشانے کے حامل گرینیڈ کے ذریعے اس گن کو بھی تباہ کردیا۔ دوبدو ہاتھاپائی کے دوران میجر طفیل نے دیکھا کہ بھارتی چوکی کا کمانڈر خاموشی سے ان کے ایک جوان پر حملہ آور ہونے والا تھا باوجود شدید زخمی ہونے کے میجر طفیل رینگتے ہوئے دشمن کمانڈر کے پاس پہنچ گئے اور اپنی ایک ٹانگ پھیلا دی جیسے ہی دشمن ٹھوکر کھا کر گرا میجر طفیل نے اپنے اسٹیل ہیلمٹ سے اس کے چہرے پر ضربیں لگا کر اپنے جوان کو بچالیا۔ میجر طفیل نے اپنے دستے کی قیا دت جاری رکھی یہاں تک کہ بھارتی اپنے پیچھے چار لاشیں اور تین قیدی چھوڑکر فرار ہوگئے۔ میجر طفیل اسی دن اپنے زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئے اور انہیں پاکستان کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا۔