ایک طویل عرصے سے ملک میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا سلسلہ جاری ہیں، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے خون کا بازار گرم ہے جبکہ بلوچستان میں بغاوت جڑیں پکڑ رہی ہے۔ یہ صورتحال پیدا کرنے والے عناصر کون ہیں ابھی تک بے نقاب نہیں ہو سکے البتہ سیاست کے پجاری ایک دوسرے مورد الزام ٹھہرا کر میر جعفر اور میر صادق ہونے کے طعنے ضرور دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بیٹھی گریجویٹ اسمبلی میں یقینا اکثریتی نمائندے ایسے بھی ہوں گے جو شاید میر جعفر اور میر صادق کے کردار سے بھی واقف نہ ہوں لیکن پھر بھی اپنے سیاسی مخالفین کو ان القابات سے نواز کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ میر جعفر اور میر صادق دو ایسے غدار تھے جنہوں نے جنگ آزادی میں اپنوں کو چھوڑ کر انگریز کا ساتھ دیا تھا۔ میر جعفر نواب سراج الدولہ کی فوج میں ایک سردار تھا۔ اُس کی بدفطرتی کا یہ عالم تھا کہ نواب سراج الدولہ سے غداری کرکے ان کی شکست اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا جس کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عملاً قبضہ ہو گیا جبکہ میر صادق متحدہ ہندوستان میں ٹیپو سلطان کے دربار میں وزیر کے عہدے پر فائز تھا۔ اس کے بارے میں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ چوتھی انگلو میسور جنگ میں انہوں نے ٹیپو سلطان سے غداری کی اور سلطنت برطانیہ کا ساتھ دیا، جس کی وجہ سے میسور میں اس جنگ کے دوران ٹیپو سلطان کو شکست ہوئی اور وہ شہید کر دیئے گئے۔ میر جعفر اور میر صادق کا کردار تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جا چکا ہے۔ یہ دونوں غدار خود تو دنیا میں نہیں رہے لیکن اپنے پیچھے کئی ایسے جانشین چھوڑ چکے ہیں جو نہ صرف اُن کے نقش ِ قدم پر چل رہے ہیں بلکہ اُن کے کردار کی بدولت دونوں غداروں کا نام بھی زبان زدِعام ہے۔آج مملکت خداداد پاکستان بھی میر جعفر اور میر صادق کے جانشینوں کے نرغے میں ہے۔ آج کل کے حالات دیکھ کر تو لگتا ہے کہ پاکستان میں میر جعفر اور میر صادق زیادہ ہیں جبکہ ٹیپو کم رہ گئے ہیں۔ ٹیپو سلطان سچے مسلمان، عظیم سپاہی اور ہفت زبان تھے۔ وہ ہر وقت باوضو رہتے، نماز فجر کے بعد بلاناغہ قرآن کی تلاوت کرتے، مکروہات اور فہمیات سے مکمل اجتناب کرتے، اپنے شاہی فرمان کی پیشانی پر اپنے ہاتھ سے ”بسم اللہ” لکھتے۔ وہ خود تو ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہے” کہہ کر وطن پر نثار ہو گیا جبکہ اُن سے غداری کرنے والا میر صادق آج بھی نفرت کی علامت بنا ہوا ہے۔ اس وقت جہاں ہماری پارلیمنٹ میںمیر صادق اور میر جعفر موجود ہیں وہیں صحافت، عدلیہ، فوج اور دیگر اداروں میں بھی ان کی کمی نہیں ہے۔سیاست اور صحافت کا تعلق سماجی خدمت سے ہے لیکن بدقسمتی سے یہ دونوں ادارے میر جعفر اور میر صادق کے جانشینوں کی بدولت بدنام ہو چکے ہیں ۔اسی طرح عدلیہ، فوج اور دیگر اداروں میں بھی میر جعفر اور میر صادق کے جانشینوں کی موجودگی نہ صرف ملک کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے بلکہ ان لوگوں کے بے نقاب نہ ہونے کی بدولت ملک کا مستقبل بھی دائو پر لگ سکتا ہے۔میر جعفر اور میر صادق کے کئی جانشین سیاست دانوں کا تو یہ عالم ہے کہ عوامی خدمت کو پس پشت ڈال کر ملکی سلامتی کی ضامن افواجِ پاکستان اور خفیہ اداروں کے خلاف زہر اُگل کر ملک کو دولخت کرنے کے درپے ہیں۔ ان کی ”حب الوطنی” ایسی ہے کہ پاکستان کا پانی پینا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ منرل واٹر کی بوتلیں بھی یورپ سے آتی ہیں۔ کسی غریب سے ہاتھ ملا لیں تو فوراً جیب میں ہاتھ ڈال کر اینٹی بیکٹریل ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اس میں قصور ان کا بھی نہیں بلکہ آپ اور مجھ جیسے ”باشعور” پاکستانی ووٹ، سپورٹ دے کر ان کو قوم کا خون چوسنے کیلئے اقتدار کی قوت دیتے ہیں۔ تف ہے ایسی حب الوطنی پر جو ملک کو دشمنوں کے حوالے کرنے میں اُن کی پوری طرح سے مددگار ثابت ہو۔ بلوچستان اور کراچی کے موجودہ حالات کی بدولت پاکستان زخموں سے چور ہو چکا ہے جبکہ سیاست دان اس پر مرہم رکھنے کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو میر صادق اور میر جعفر کے القابات دے کر خود ”نیک پروین” بن جاتے ہیں۔کراچی پاکستان کا صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی اور اقتصادی مرکز ہے جبکہ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی اسی شہر میں واقع ہے۔ ملک کی معیشت کا ستر فیصد انحصار بھی اسی شہر پر ہے۔ بلوچستان کی اہمیت کا اندازہ ہم پاکستانیوں سے زیادہ مغربی ممالک کو ہے۔ گوادر کے گرم پانیوں تک رسائی کا خواہاں جہاں برطانوی راج میں سابق سوویت یونین رہا وہیں ایران، امریکا اور کئی دیگر مغربی ممالک کی نظریں آج بھی اس پر جمی ہوئی ہیں۔ ہم صرف بلوچستان کی سمندری پیداوار، سونا اور چاندی کو عالمی منڈی میں ڈال دیں، تیل و گیس، تانبہ، زراعت اور دیگر وسائل کو صرف گھریلو ضرورتوں تک محدود رکھیں تو آدھا پاکستان خوشحال ہو جائیگا۔ کراچی اور بلوچستان کا براہ راست تعلق چونکہ پاکستان کی خوشحالی سے ہے اس لئے یہاں فسادات بھی وہی قوتیں کرا رہی ہیں جو ملک کو پھلتا پھولتا دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قوتیں میر جعفر اور میر صادق کے جانشینوں کی بدولت ملک کو دولخت کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہیں۔ ایبٹ آباد ڈرامہ کے ذریعے جہاں پاکستان اور اس کے سکیورٹی اداروں کو بدنام کیا گیا وہیں پی این ایس مہران پر حملہ کرکے بھی ملک کے دفاع پر کاری ضرب لگانے کی ناپاک کوشش کی گئی۔ ان دونوں واقعات کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو میر جعفر اور میر صادق کا کردار یہاں بھی کھل کر سامنے آتا ہے۔ ان واقعات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ملک دشمن عناصر نے انتہائی کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی طرح بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکوں اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں میر جعفر اور میر صادق کے یہ جانشین متحرک ہیں۔ ایٹمی پاکستان کا وجود جہاں امریکا، بھارت اور اسرائیل کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے وہیں دشمن اس طرح کے حالات پیدا کرکے پاکستان کو توڑنے اور اس کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی بھی چاہتا ہے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کراچی اور بلوچستان کے حالات کا ذمہ دار ہمیشہ سے تیسری قوت کو ٹھہراتے آئے ہیں لیکن آج تک یہ قوت بے نقاب نہیں ہو سکی۔ بلوچستان اور کراچی کے حالات خراب کرنے میں جہاں ہمارے سیاست دانوں کا بڑا ہاتھ ہے وہیں دشمنی اور دوستی کا روپ دھارے بعض غیر ملکی قوتیں بھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے متحرک ہو چکی ہیں۔ آج سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا دوست کون اور دشمن کون ہے۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو سفارتی سطح پر ڈھکی چھپی ہوتی ہیں لیکن کسی نہ کسی طرح ظاہر ہو ہی جاتی ہیں۔ معروف دانشور اور سابق سفارت کار ڈاکٹر نذیر ذاکر تیرہ برس تک ایران میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ پہلے آٹھ برس ایرانی سفارت خانے میں کلچرل اتاشی رہے بعد میں آر سی ڈی ہیڈ آفس تہران میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور پانچ برس وہاں قیام کیا۔ وہ 1990ء سے 1993ء تک وزیراعظم ہائوس میں ایران ڈیسک کے کنسلٹنٹ بھی رہے جبکہ ایران پر دس کتابیں بھی تحریر کر چکے ہیں۔ 28اکتوبر 2009ء کو کراچی کے ایک روزنامہ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچستان کے حوالے سے ایران کا ایک مؤقف رہا ہے۔ اس کی درسی کتابوں میں یہ بات پڑھائی جاتی ہے کہ بلوچستان ایران کا حصہ تھا جسے انگریزوں نے زبردستی ہندوستان میں شامل کیا، پھر 71ء کی جنگ میں ایران نے کھل کر بلوچستان پر اپنا حق جتایا اور کارروائی کی دھمکی بھی دی۔ ایران کی نظر اس لئے بھی بلوچستان پر ہے کہ یہ علاقہ ایران کے سیستان کی نسبت نشیب پر ہے۔ اگر پاکستان تیل نکالنا شروع کر دے تو ایران کا تیل اس کی طرف آ جاتا ہے جس کا ایران کو ڈر ہے کہ پاکستان کہیں تیل نکالنا شروع نہ کر دے۔ ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ گوادر پورٹ پر بھی ایران کو تحفظات ہیں اور وہ بلوچستان میں معدنیات نکالنے کا بھی شدید مخالف ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کے ثبوت بھی ہیں کہ ایران نے گوادر مخالف قوتوں کو وسائل فراہم کئے جبکہ بھارت نے ان میں رقوم تقسیم کیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اینٹی گوادر پروجیکٹ میں ایران، بھارت اور امریکا اکٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ملکوں کے درمیان دوستی نہیں بلکہ مفادات ہوتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جہاں ایران کے تعلقات پاکستان کی نسبت بھارت سے اچھے ہیں وہیں گوادر کے معاملے میں امریکا بھی ایران کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ گوادر کی تعمیر سے ایران کے بحری ٹریفک کنٹرول اور اس کے مفادات پر ضرب پڑ سکتی ہے کیونکہ اس طرف گزرنے والی تمام ٹریفک کو گوادر سب سے بہترین مقام پڑتا ہے۔ ایران نے اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایرانی بلوچستان میں بھارت کے تعاون سے ایک نئی بندرگاہ تعمیر کی ہے۔ بھارت نہ صرف بندرگاہ تعمیر کرکے دے رہا ہے بلکہ چار سو پچاس کلومیٹر سے زائد کی ایک روڈ بھی تعمیر کر رہا ہے جو اس بندرگاہ کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ممالک سے ملائے گی۔ مزید برآں ایران کے ساتھ تعاون کے نتیجے میں بھارت چین کے گوادر میں اثرات کو بھی کم کر سکتا ہے، جس کے نتائج بلوچستان میں پھوٹ پڑنے والی بغاوت سے بخوبی لگائے جا سکتے ہیں۔ ایران بظاہر تو پاکستان کا دوست ملک ہے لیکن بلوچستان میں ہونے والی بغاوت کے تناظر میں اس پر بھی نظر رکھنا پڑے گی البتہ خطے کے موجودہ حالات اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے ہمیں ایران سے بگاڑنی نہیں چاہئے کیونکہ اس سے بہرحال اسلام کے دشمنوں کو ہی فائدہ ہوگا۔ بلوچستان میں بغاوت کو ہَوا دینے والی قوتیں ملک دشمنی میں اس قدر آگے بڑھ چکی ہیں کہ اگر بالفرض اُن سے یہ پوچھ لیا جائے کہ آپ بلوچستان میں امریکا، بھارت اور ایران کے کردار کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں تو فوراً اپنی توپوں کا رُخ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی طرف موڑ کر بات گول کر دیتی ہیں۔ کسی بھی ملک کے انٹیلی جنس اداروں کا کام دشمن کی چالوں، خفیہ سازشوں، ملک کو درپیش خطرات کو قبل از وقت بے نقاب کرنا ہوتا ہے اور یہی کردار آئی ایس آئی اور ایم آئی کا بھی ہے لیکن ملک دشمن عناصر اپنے ہی اداروں کو بدنام کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ملک کی حفاظت میں ہماری مدد کرے اور پاکستان کو میر جعفروں اور میر صادقوں سے بچائے۔ یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ کون میر جعفر اور کون میر صادق ہے بلکہ محب وطن پاکستانی اُنہیں خود اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ تحریر: نجیم شاہ