میموکیس:تمام فریقین سے تین روز میں شق وار جواب طلب

supreme court

supreme court

میمو کیس میں سپریم کورٹ نے تمام فریقین سے تین روز میں شق وار جواب طلب کرلیا ہے جبکہ جواب کے ساتھ بیان حلفی بھی داخل کرانے کی ہدایت کی ہے۔ سپریم کورٹ نے میموکیس پراپنی کارروائی کیخلاف بیان بازی کرنیوالی حکومتی شخصیات کے خلاف کارروائی سے متعلق وزیراعظم کا موقف بھی طلب کیا ہے، عدالت نے آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور منصوراعجاز کے جوابات پرپٹیشنز کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فریقین کی رائے 3 دن میں طلب کرلی ہے۔ کیس کی مزید سماعت 22 دسمبر کو ہوگی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں میمو کیس کی سماعت کرنے والے9 رکنی بینچ نے بابر اعوان کی پریس کانفرنس کو عدلیہ کے فیصلوں کی تضحیک قرار دیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ یہ وفاق کا موقف ہے یا بابر اعوان کا انفرادی فعل۔ اٹارنی جنرل نے جواب میں اسے انفرادی فعل کہا چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر وفاق نے اس پر کیا ایکشن لیا۔ انہوں نے کہاکہ عدلیہ کو خراب کرنے کیلئے اداروں کو استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس پر توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ عدالت نے بابر اعوان کی پریس کانفرنس کی وڈیو پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔   چیف جسٹس نے کہاکہ حکومت کا پی آئی ڈی آفس، عدلیہ کی تذلیل کیلئے استعمال ہوا۔ عاصمہ جہانگیر بھی اس کے خلاف توہین عدالت کی پٹیشن نہیں لائیں، اس پر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ انہوں نے وہ پریس کانفرنس نہیں دیکھی، میڈیا پر بہت کچھ غلط چل رہا ہے جو قابل مذمت ہے، عدالت کے پاس بھی توہین کیخلاف اختیار موجود ہے۔
جسٹس جوادخواجہ نے کہا کہ عدلیہ کو حکومت یا پارلیمنٹ سے نہیں بلکہ عوام کے بنائے گئے آئین سے عدلیہ کو اختیار ملا،چیف جسٹس نے عاصمہ جہانگیر کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ عدالت نے حقانی کو قابل عزت لکھا آپ کو علم ہوجائے گا کہ انہیں بغیراجازت باہر جانے سے کیوں روکا۔ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ان کی پرائم ڈیوٹی عدالت کے ساتھ ہے ۔

مقدمہ کے دو اور درخواست گزاروں بیرسٹرظفراللہ اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پٹیشنز کے قابل سماعت ہونے کے حق میں دلائل دیئے اور کہاکہ اس مقدمہ کو عوامی اہمیت کی بنیاد پر بھی زیر سماعت لایاجاسکتا ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ آرمی چیف نے جواب میں بہت اہم باتیں کہیں، صدر اس مقدمہ کے الزامات فریق ہیں ، ان کی طرف سے جواب آیا نہ الزامات کا انکار کیا گیا، دیوانی معاملات میں انکار نہ کرنے کا مطلب الزام قبول کرنا ہوتاہے۔