نظام تعلیم(2)

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

نظام تعلیم ایک ایسا موضوع ہے جس پہ میرے جیسا جاہل شخص کوئی خاص تبصرہ نہیں کرسکتا ،لیکن پھر سوچتا ہوں کچھ نہ کرنے سے کچھ نہ کچھ کر گزرنا بہتر ہے ،یہی سوچ مجھے لکھنے پر مجبور کردیتی ہے ۔میری نظر میں نظام تعلیم کو بہتر کرنے لئے میری رائے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو نظام ترتیب دے دیااور اس کی عملی مثال حضوراکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حیات مبارکہ ہے اس سے بہتر کوئی نظام ہوہی نہیں سکتا۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہرطرح کی راہنمائی کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرف رجوع کریں۔اگر ہم مسلمان دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

تو پھر ہمیں اللہ کے نور سے اپنی زندگیوں میں روشنی کرنا ہو گی۔ انسان ساری کائنات کو چھوڑ صرف اپنے آپکو دیکھے توآسانی سے سمجھ سکتا ہے کے خالق کائنات نے انسان کو۔کون کون سی نعمتوں سے نوزا ہے سب سے بڑھ کراللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل وشعور کی نعمت عطا کی اور اشرف لمخلوقات بنا کر فرشتوں سے بھی افضل کردیا اور اس قدر نعمتوں کی برسات کی کہ انسان شمار تک نہیں کرسکتا ۔جیسا کہ قرآن مجید میں سورة رحمٰن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گئے۔میں سمجھتا ہو ں کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو قرآن مجید میں تمام کائنات کا علم عطا کردیا ہے ۔

جس طرح ظاہر کی آنکھ اگر اندھی ہو تو انسان کچھ بھی دیکھ نہیں پاتا اسی طرح باطن کی آنکھ بند ہو توکبھی بھی حق نظر نہیں آتا۔آج مسلمانوں کو ظاہری آنکھ کے ساتھ ساتھ باطنی آنکھ کھلی رکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ باطنی آنکھوں کو روشن کرنے کابہت آسان ،سیدھا اور واحدراستہ اسلام ہے لیکن صرف کہنے ،سننے ،لکھنے ،پڑھنے اور بحث کرنے سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ہم اللہ کے دین کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال نہیں لیتے تب تک ہمیں سیدھا راستہ نظر نہیں آئے گا۔ آج دنیا بھر کے مسلمان اپنی اصل طاقت یعنی اللہ کے قرآن اور سر کاردوعالم حضرت محمد ۖ کی احدیث مبارکہ سے دور ہو کر بہت کمزورہوچکے ہیں۔میرا ایمان ہے کے مسلمانوں کی طاقت کاراز بھی قرآن مجید میں چھپا ہے اور اگرہم مسلمان طاقتور بننا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم کو اپنی زندگیوں شامل کرنا ہوگا۔

زبانی جمع خرچ بہت ہوچکا اب عملی اقدمات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں جو آج اسلامی تعلیمات سے بہت دور نکل چکیں ہیں تباہ وبرباد ہو جائیں گی ۔خدارا والدین، استاتذہ اکرام اور علماء کرام نوجوان نسل کو بے حودہ فلموں بے حودہ گانوں ڈانس اور جنسی عشق پیچے سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔تاکہ آج کے نوجوان کو سچا مسلمان بنایا جا سکے تاکہ آنے والی نسلوں کو قرآن کریم کے نزدیک لانے میں مددمل سکے۔ضرورت تو بہت سے اقدمات کی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ سب سے پہلے نظام تعلیم کو بہتر کرتے ہوئے اسلامی تہذیب و تمدن کے دائرے میں لایا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

تمدن کسی بھی علاقے یاقوم کی طرزمعاشرت کانام ہے۔اس میں وہ تمام امور شامل ہیں جوہماری معاشرت اور مادی زندگی کے متعلق ہوں ، اس میںرہن سہن اور رسم و رواج بھی شامل ہیں، سرکاردوعالم ۖنے ایک مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے تہذیب وتمدن کے اصول مقررفرمائے ۔ایسی اصلاحات کیں کہ وہ مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بن گئیںآپۖ نے لوگوں میں تقویٰ ،خوف خُدا اور آخرت کی جواب دہی کاایسا احساس پیدا کردیا کہ وہ کبھی بھی گناہ کے قریب نہ جاتے تھے۔حضوراکرۖکی زندگی مبارکہ قیامت تک انسانیت کے تعلیم وتربیت کا عملی نمونہ ہے ۔خاص طورپرمسلمانوں کے لئے ،آج ہم اپنے آپ کو مسلمان تو کہتے ہیں لیکن افسوس ہمارارہن سہن ، رسم ورواج اور نظام تعلیم و تربیت اس بات کی گواہی نہیں دیتا۔

ہمارے ہاں جو نظام تعلیم رائج ہے بد قسمتی سے وہ سارا کاسارا مغربی تہذیب کے مطابق ہے ۔ مغربی طرزتعلیم کے سبب اجنبی لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ طور سے بات چیت کرنے لگتے ہیں،یہاں تک کہ بات آگے بڑھ جاتی ہے ایسے سکولوں،کالجوں ویونیورسٹیوں میں جہاں مسلم لڑکے اور لڑکیاں دونوں زیرتعلیم ہوتے ہیں،وہاں وہ ایک دوسرے سے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ پاتے،یہاں تک کہ بہت سے لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان عشق و معاشقہ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے،جوآگے چل کر خطرناک رخ اختیار کرلیتی ہیں، بات من پسند شادی کے لیے کورٹ میرج اور ناکامی کی صورت میں خود کشی و قتل غارت تک بڑھ جاتی ہے۔

یہ نظام صرف جنسی بے راروی کو پھیلانے کی وجہ بنتا ہے۔ بچوں کو علم ہنر سے اس قدر دور کردیتا ہے کہ 20سال تک تعلیم حاصل کرنے کے باوجود جاہل کے جاہل راہ جاتے ہیں ۔اس طرح بچے عقل و شعور کا وہ خزانہ بھی گنوا بیٹھتے ہیں جو انسان کو پیدایشی طورپروراثت میں قدرت عطا کرتی ہے ۔ جاری ہے۔

تحریر : امتیاز علی شاکر