نظر ملا کے ذرا دیکھ مت جھکا آنکھیں

looking

looking

نظر ملا کے ذرا دیکھ مت جھکا آنکھیں
بڑھا رہی ہیں نگاہوں کا حوصلہ آنکھیں

جو دل میں عکس ہے آنکھوں سے بھی وہ چھلکے گا
دل آئینہ ہے مگر دل کا آئینہ آنکھیں

وہ اک ستارا تھا جانے کہاں گرا ہو گا
خلا میں ڈھونڈ رہی ہیں نہ جانے کیا آنکھیں

قریب جاں دم خلوت مگر سرمحفل
ہیں اجنبی سے بھی بڑھ کر وہ آشنا آنکھیں

غم حیات نے فرصت نہ دی ٹھہرنے کی
پکارتی ہی رہیں مجھکو صدا آنکھیں

تباہیوں کا کسی نے اگر سبب پوچھا
زبان حال نے بے ساختہ کہا آنکھیں

جھٹک چکا تھا میں گرد ملال چہرے سے
چھپا سکیں نہ مگر دل کا ماجرا آنکھیں

یہ اس کا طرز تخاطب بھی خوب ہے محسن
رکا رکا سا تبسم خفا خفا آنکھیں

محسن بھوپالی