ہمارے بزرگ جنہوں نے پاکستان کو حتمی شکل دے کر دنیا کے نقشے پر نمودار کیا وہ ایچی سن کالج پنجاب یونیورسٹی اور بیکن ہاؤس کے طلبا نہیں تھے وہ عام ٹاٹوں کے اُوپر بیٹھ کر پڑھے تھے مگر ان کا رزلٹ ایسا ہے کہ و ہ آج کے دور کے پڑھے لکھے لوگوں سے کہیں بہتر ہیں۔ اور آج ہمیں جو یہ حکمران نظر آ رہے ہیں یہ چھوٹے طبقے سے ہی آگے آئے ہیں۔ اس وقت تعلیم کا معیار بہت بہتر تھا اُس وقت اُستاد شاگر د کو اپنی اولاد سمجھ کر پڑھاتا تھا۔ اُس وقت نہ ٹیوشن سنٹر تھا نہ اکیڈمی ۔ شاگرد اپنے سکول ٹیچر کے پاس جا کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔
اس لیے وہ سب طلبا جن کو ایسے اچھے استاد اور اچھی تربیت ملی وہ آج عالیٰ عہدے پر فائز ہیں اور آج کے دور میں جہاں تعلیم اتنی مہنگی ہو چکی ہے۔ اور حکومت تعلیمی اداروں پر کروڑوں ،اربوں روپے خرچ کر رہی ہے ۔ مگر ان سب کی بدولت بھی ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے ۔ ہمارے بزرگوں کے دور میں وسائل کم تھے مگر مشکلات کا سامنا کر کے انہوں نے اپنی منزلیں آسان بنا لی تھیں۔ مگر آج کے دور میں تمام تر وسائل موجود ہونے کے باوجود بھی ہمارا تعلیمی گراف کیسا ہے ۔
آج کے طلباء میں کرپشن غنڈہ گردی ، منشایت فروشی ، بے حرمتی ٹیچروں کے ساتھ بے حودہ مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ہمارے نو جوان طلبا کو موبائل فون آگے بڑھنے نہیں دے رہا۔ یہ ایک سہولت تھی مگر آج کے نو جوان نے اسے اپنی کمزوری بنا رکھا ہے ۔ آج کے نو جوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صحت مند کیوں نہیں رہتے ۔ پینسلوں جتنی جسامت چپکے گال ایسے لگتا ہے جیسے اندھیری کے آتے ہی یہ کسی دیوار کے ساتھ چپک جائیں گے۔ ہم نے کبھی سوچا ہے کہ نو جوان ایسے کیوں ہیں؟ کیونکہ جب یہ پوری پوری رات موبائل فون پر بات کریں گے ۔ اپنے ذہن و دماغ میں پڑھائی کا گراف برائے نام رکھیںگے۔ ون ویلنگ جیسے خطر ناک کھیل سے منسلک رہیں گے ۔منشیات کا استعمال ان میں عام ہو گا۔
اسلحہ لہرانا لڑکیوں کے پرس کھینچنا ۔ٹیچروں کے ساتھ بدتمیزی کرنا ان کی بے ادبی کرنا جاری رکھیںگے۔ تو یہ پھر اور کیا ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کو نوجوان نسل نے آگے بڑھ کر سنبھالنا ہے اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ مگر ہمارا نو جوان خود کے پائوں پر کھڑا نہیں رہ سکتاوہ پاکستان کو کیسے سنبھالے گا؟ میرا پوری پاکستانی نو جوان نسل سے ایک سوال ہے جو مجھے بے چین کیے ہوئے ہے کہ آج کا نو جوان کل کا پاکستان کا مستقبل بن سکتا ہے ؟اگر ہاں تو کیسے۔