کیا تختِ لاہور سمندر کی طوفانی، بے رحم اور جان لیوا موجوں کی نذر ہو چکا ہے یہی وہ سوال ہے جو عمران خان کے ٣٠ اکتو بر کے جلسے کے بعد ہر کس و ناکس کی زبان پر ہے اور جس کا جواب اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ سمجھا جا رہا ہے۔لاہور میاں برادران کا مضبوط گڑھ ہے اور ان کی ساری سیاست کا محور لہذا اسے بچانے کی خاطر میاں برادران اپنا پورا زور لگا دیں گئے لیکن اسے کسی صورت میں بھی دستِ اغیار میں جانے نہیں دیں گئے۔ انھیں بخوبی علم ہے کہ اگر ایک دفعہ لاہور ان کے ہاتھوں سے نکل گیا تو پھر پنجاب سے ان کی سیاست کا بو ریا بستر گول ہو جا ئے گا جو انھیں کسی صورت میں بھی گوارا نہیں ہے ۔میاں برادران کے پاس دھن دولت کی کو ئی کمی نہیں ہے اور خریدو فروخت کے فن میں بھی وہ یدِ طولی رکھتے ہیں لہذا ان کے پائوں کے نیچے سے کارپٹ کھینچنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ پنجاب کے سارے سرمایہ دار، جاگیر دار ،صنعت کاراور امراء ان کی پشت پر کھڑے ہیں لہذا انھیں لاہور میں شکست دے کر ا پنا سکہ جمانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تحریکِ انصاف اس جلسے سے ایک عوامی لہر کی مانند ضرور ابھری ہے لیکن زمینی حقائق سے نظریں چرانا اور انتخابی سیاست کی موشگافیوں سے صرفِ نظر کرنا دانشمندی کی علامت نہیں ہے ۔٢٨ اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) نے بھاٹی چوک لاہور میں ایک جلسہ عام کا نعقاد کیا اور حکومتی مشینری نے اس جلسے کی کامیابی کے لئے جادئوئی ہاتھ دکھایا ۔ حکومتی اہلکاروں ، مشینری، گاڑ یوں اور فنڈز کو اس جلسے کی کامیابی کیلئے بے دریغ استعمال کیا گیا تا کہ حاضرین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکے اور اس سا رے عمل میں پنجاب حکومت کا میابی سے ہمکنار ہوئی کیونکہ حاضرین کی تعداد کے کے لحا ظ سے یہ جلسہ کامیاب تھا۔ حکومتی وسائل کو جماعتی جلسوں کے لئے استعمال کرنا کوئی انہونی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ پہلی بار کیا گیا ہے۔ ساری حکومتیں یہی کرتی ہیں اور مسلم لیگ (ن) نے اگر ایسا کیا ہے تو یہ معمول کی کاروائی ہے جس پر چیں بچیں ہو نے کی چنداں ضرورت نہیں ہے لیکن اس جلسے میں جس طرح کی زبان استعمال کی گئی اس نے میاں برادران کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ ان کی شہرت کو داغدار کیا ہے ۔اگر میں یہ کہوں کہ میاں برادران کے اس جلسے نے عوامی جذبات کو اس بری طرح سے مجروع کیا کہ عوام نے تیس اکتوبر کو عمران خان کے جلسے میں شرکت کر کے میاں بر ادران کے اندازِ سیاست سے اظہارِ بیزاری کیا تو بے جا نہیں ہو گا۔ میں نے ٹیلیویژن پر کئی ٹاک شوز دیکھے ہیں لیکن ان میں سے مسلم لیگ (ن) کا کو ئی عہدیدار بھی میاں برادران کے غیر مہذب اندازِ تکلم کا دفاع نہیں کر پایا۔ بحث و مباحثہ میں وقت گزاری کے لئے آئیں شائیں بائیں تو کیا جا سکتا ہے لیکن منطق اور دلیل کی روح اگر مفقود ہو تو وہ بڑی عیاں ہوتی ہے اور سب کو نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ٹھوس دلیل کی بنا ء پر ابھی تک صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف ا پنے قائدین کی غیر پالیمانی زبان کا موثر دفاع نہیں کر سکی۔ الزام در الزام سے صورتِ حال سنورنے کی بجائے بگڑتی جاتی ہے اور یہی سب کچھ مسلم لیگ کے زعماء کر رہے ہیں۔ الجھی ہوئی ڈور کو زبردستی سلجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ اور بھی الجھتی جا تی ہے اور ایسا ہی انداز مسلم لیگ کے جذباتی اور جوشیلے کارکنوں نے اپنایا ہوا ہے جو مسلم لیگ کے لئے مزید خفگی کا باعث بن رہا ہے۔ مکر ، فریب اور شور شرابہ سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ نہیں بنیا یا جا سکتا لہذا میاں برادران کی اٹھائیس اکتوبر کے جلسے میں ہذیانی کیفیت دفا ع سے ماورا ہے جس کا نقصان بہر حا ل مسلم لیگ(ن) کو اٹھا نا پڑ رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس جلسے نے میاں برادران کی جمہوریت پسندی کے نعرے کو بڑا شدید نقصان پہنچا یا ہے۔ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کرادر سے آنکھیں بند کرنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے ہمیشہ میدان میں اترتے رہے ہیں اور ان کے اشاروں پر میدان فتح بھی کئے جاتے رہے ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کمال یہ ہے کہ یہ جیسے چاہتی ہے سیاست کا بہائو اسی جانب موڑ دیتی ہے۔میاں برادران خود اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں اور انہی کی بیساکھیوں کے سہارے انھوں نے اپنی سیاسی دوکان بھی چمکائی تھی لہذا ان سے بہتر اسٹیبلشمنٹ کی چالوں کو سمجھنا کسی اور کے لئے ممکن نہیں ہے۔ پی پی پی ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی مار کھاتی آئی ہے اور اسی لتریشن نے آخر کار انھیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر اسٹیبلشمنٹ ہر بار پی پی پی کو تختہِ مشق کیوں بناتی ہے اور اسی کو پھینٹی لگانے کیلئے کیوں کمر بستہ رہتی ہے ۔یہ تھا وہ بنیادی سوال جس پر پی پی پی کے اندر ایک ڈائیلاگ ہوا لیکن پی پی پی نے اپنے مجوزہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رول کو بدل دینے پر آمادگی ظاہر نہ کی اور اس نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت رہنے کو ترجیح دی۔ آصف علی زرداری کی موجودہ حکومت نے شائد اپنی اس بنیادی سوچ میں قدرے تبدیلی کرلی ہے اور اس کی بنیا دی وجہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وہ مفاہمتی سیاست ہے جس میں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور پاکستان کے استحکام اور ترقی کے سارے بڑے اور اہم فیصلے مل بیٹھ کر کرنے ہیں تا کہ ملک کو طاقت ، توا نائی اور استحکام نصیب ہو سکے اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے۔آصف علی زرداری جس زما نے جیل میں تھے انھوں نے اس وقت بھی اس نظریے کو پیش کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کر کے انھیں بہتر بنا یا جائے لیکن اس وقت پی پی پی کی قیادت نے اس فارمولے کو رد کر دیا تھا لہذا آصف علی زرداری امریکہ میں سکونت پذیر ہو گئے تھے اور پارٹی اپنے نظریے کے مطابق آگے بڑھتی رہی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور ان کے مفاہمتی نظریے کی روشنی میں آصف علی زرداری کو اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں پارٹی کی بنیادی سوچ کو تبدیل کر کے آگے بڑھنا پڑا اور شائد یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے ذولفقار علی بھٹو کے عہدِ حکومت کے بعد سب سے طویل عرصے کیلئے اقتدار میں رہنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی اپنی دونوں حکومتیں تھوڑے تھوڑے وقفوں سے برخاست ہو تی رہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پی پی پی کو اپنے وجود کیلئے خطرہ تصور کرتی تھی۔ اس بات کا کریڈٹ تو بہر حال آصف علی زرداری کو جاتا ہے کہ وہ ابھی تک اقتدار کی مسند پر بیٹھے ہو ئے ہیں حالانکہ مختلف حیلے بہانوں سے ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کئی دفعہ سنجیدہ کو ششیں کی گئی ہیں لیکن ابھی تک یہ ساری کوششیں نقش بر آب ثابت ہو ئی ہیں۔ میں ان لو گوں کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی سر پرستی حاصل ہے۔یہ سچ ہے کہ اگر عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی پشت پنائی حاصل نہ ہوتی تو لاہور کا یہ جلسہ اتنا حیران کن نہ ہوتا۔عمران خان کو یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر پرندہ پر نہیں مار سکتا لہذا اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر سیاسی میدان کو فتح کرنے کا منصوبہ بنا یاہے جس میں اسے کامیابی نصیب ہو ئی ہے ۔عمران خان نے ٣٠ اکتوبر کو سیاست کے بہت سے کھلاڑیوں کو کلین بولڈ کر دیا اور انھیں ابھی تک یہ سمجھ نہیں آرہی کہ راتوں رات ان کے سا تھ کیا واردات ہو گئی ہے ۔ میا ں برادران کی حیثیت کو ان کے اپنے گھر کے اندر سرِ عام چیلنج کیا گیا ہے اور وہ ابھی تک بت بنے اس صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔وہ ہ سیاسی جماعتیں جن کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کے سہارے پر قائم تھی ان کے تو اوسان خطا ہو گئے ہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کی جگہ نیا گھوڑا میدان میں اتار دیا ہے۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے بغیر کامیابی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن پی پی پی نے برسوں ایسا کر کے دکھایا ہے تبھی تو یہ سیاسی میدان میں ایک قوت کی مانند زندہ ہے۔ پاکستان میں بھٹو خاندان کے علاوہ کوئی سیاست دان ایسا نہیں ہے جس نے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے بغیر سیاسی میدان مارا ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کتنی طاقتور ہے اس کا پوچھنا ہو تو ان جیالوں سے پوچھو جنھیں قیدو بند کی صعوبتوں سے گزارا گیا تھا اور جن کی پیٹھیں کوڑں کی ضربوں سے اڈھیر دی گئی تھیں۔ ستم با لائے ستم یہ ہے کہ ان سب جیالوں کو اپنی بے مثال قربانیوں کا آج تک کوئی صلہ بھی نہیں مل سکا لیکن ان کی وفاداریاں اب بھی پی پی پی کے ساتھ ہیں۔۔ میری ذاتی رائے ہے کہ تحریکِ انصاف کا یہ جلسہ نئے سیاسی امکانات کو تراشنے میں عمران خان کی بھر پور مدد کرے گا ۔ ہمارے ہاں کچھ ٹیکنو کریٹ اپنی علیحدہ دوکان سجا کر بیٹھے ہو ئے ہیں اور اقتدار کے امیدوار بنے ہو ئے ہیں ۔تحریکِ انصاف ان کیلئے ایک سنہری موقع فراہم کر رہی ہے کہ وہ اس جماعت میں شامل ہو کر اقتدار کی راہ کو آسان بنا لیں ۔ ٹیکنو کریٹ کی صلاحیتوں کا ہر شخص معترف ہے اور ان کی فہم و فراست کا ستائشی بھی۔ عمران خان کو بھی ایک ایسی ٹیم مل جائے گی جو امورِ مملکت میں بڑی مشاق ہے اور اس کا وسیع تجربہ رکھتی ہے لہذا اس پر جو الزام لگا یا جاتا ہے کہ اس کے پاس کوئی ٹیم نہیں ہے وہ الزام بھی ہوا میں تحلیل ہو جائے گا اور عوام کو بھی یقین ہو جائے گا کہ اگر عمران خان بر سرِ اقتدار آگیا تو امورِ مملکت کی انجام دہی کیلئے اس کے پاس ایسے افراد ہیں جو اس کا وسیع تجربہ ر کھتے ہیں۔ لوٹوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں اب ان کو ایک ایسا قائد میسر آگیا ہے جو ان کی مارکیٹ ویلیو میں خاطر خواہ اضافہ کا سبب بن گیا ہے۔ اب ان کے پاس اپنی بولی لگوانے کے کافی آپشن موجود ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا اشارہ لوٹوں سے بہتر کو ئی نہیں سمجھ سکتا۔ انھیں خبر ہو گئی کہ اس دفعہ قرعہ فال عمران خان کی تحریکِ انصاف کے نام نکلا ہے لہذا وہ اسی جماعت کا رخ کریں گئے ۔ اسٹیبلشمنٹ کا سٹِکر (بِلا ) جس نام کے ساتھ لگ جائے اس کی جیت یقینی ہو جاتی ہے لہذا عمران خان کی قسمت کا ستارا آنے والے انتخابات میں خوب چمکنے والا ہے۔ میاں برادران مایوس نہ ہوں انھوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے پر کافی دیر سواری کر لی ہے لہذا اب کسی دوسرے کیلئے اس گھوڑے سے اتر جائیں اور اسے اس کی سواری سے لطف اندوز ہونے دیں۔ یہ حق تو بہر حال گھوڑے کے ما لک کا ہے کہ وہ گھوڑے پر سواری کے لئے کس کا نتخاب کرتا ہے اور مالکان اس معاملے میں بڑے جہان دیدہ ہوتے ہیں اور بڑا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کو چنا ہوا گھڑ سوار کتنے پانی میں ہے۔ بات کڑوی ضر ور ہے لیکن ہے تو سچی کہ میاں برادران کا وقت پورا ہو گیا ہے اور نیا گھڑ سوار میدان مارنے کے لئے بے چین ہے۔ میاں بردران نے اسیبلشمنٹ کے ہاتھوں بڑے گلچھڑ ے اڑائے ہیں۔ فیکٹریاں ،ملیں پلازے اور محلات بنا ئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اگر میاں برادران پر مہربان نہ ہوتی تو شائد میاں برادراں ملک سے باہر ہی کاروباری معاملات نپٹا رہے ہوتے۔ وہ اس سلسلے میں یو اے ای میں بھی آئے تھے لیکن ان کے مقدر کا ستارا اس وقت چمکا جب جنرل ضیا الحق کی نظرِ کرم ان پر پڑھ گئی اور وہ پتھرسے ہیرا بنا دئے گئے۔ تھے تو وہ پتھر ہی لہذا انجام تو پتھر ہی رہنا ہے۔ چندیوم کی چمک نے جو ہیرے کا تصور ابھارا تھا وہ اب ملیا میٹ ہوتا جا رہا ہے اور پتھر پھر سے اپنی اصلی شکل میں واپس آتا جا رہا ہے۔۔ پتھر کو لاکھ دھوئیں ،چمکائیں اور پالش کریں وہ رہے گا تو پتھر ہی اور پھر پتھر تو پتھر ہی ہوتا ہے جس میں ارتقا کی قوت نہیں ہوتی۔ جیسا ہوتا ہے ساری حیاتی ویسا ہی رہتا ہے ۔ حیات کے رازدان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے کسی نے پوچھا کہ ایک زمانہ تھا کہ آپ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ۔ ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا لکھا کرتے تھے لیکن اب آپ نے چین و عرب ہماا ہندو ستان ہمارا ۔ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا لکھ کر اپنی بنیادی سوچ میں ا تنی بڑی تبدیلی پیدا کر لی ہے تو ایسا کیوں ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے سوال کرنے والے سے کہا میرے دوست صرف پتھر نہیں بدلا کرتے اور میں پتھر نہیں ایک انسان ہوں اور انسانوں کی فکر اور سوچ میں ارتقا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ ہوتا رہے گا ہاں البتہ جو پتھر ہیں وہ ویسے کے ویسے ہی رہیں گئے جامد،سخت اور بے حس و حرکت ،کیونکہ ان کے اندر ارتقاء کا کو ئی امکان نہیں ہوتا۔ تحریر : طارق حسین بٹ (چیرمین پاکستان پیپلز ادبی فورم یو اے ای)