’سب اٹامک‘ ذرات یا نیوٹرینو کی رفتار جانچنے کے لیے دوبارہ کیے جانے والے ایک تجربے کے نتائج کے مطابق یہ ذرات روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کرتے۔
گزشتہ سال ستمبر میں کیے جانے والے تجربات کے بعد یہ سامنے آیا تھا کہ سب اٹامک ذرات روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر سکتے ہیں لیکن ان نتائج کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں مشہور ماہرِ طبیعات آئن سٹائن کے نظریۂ ارضافت کے ایک بڑے حصے کی تردید ہو جاتی جس کے تحت روشنی کی رفتار سے کوئی چیز آگے نہیں بڑھ سکتی۔
گزشتہ سال کے تجربے کے دوران روشنی کی رفتار کے ساتھ سفر کرنے والے نیوٹرینوز کو سرن لیبیاٹری سے اٹلی میں سات سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گران ساسو لیبیاٹری بھیجا گیا۔ تاہم نیوٹرینو کی واپسی روشنی کی رفتار سے ایک سیکنڈ قبل ہوئی۔
تاہم اب گران ساسو لیبارٹری میں سائنسدانوں کے ایک دوسرے گروپ نے اس تجربے کو دہرانے کے بعد یہ ظاہر کیا ہے کہ سب اٹامک ذرات بالکل روشنی کی رفتار سے ہی سفر کرتے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پہلے کیے جانے والے تجربات میں ان ذرات کی روانگی کا وقت درج نہیں کیا گیا تھا جس کا اندراج اب کی بار کیا گیا ہے۔
تاہم نتائج میں یہ سامنے آیا ہے کہ معمولی سی غلطی کی گنجائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سب اٹامک ذرات روشنی کی رفتار سے ہی سفر کرتے ہیں۔
اٹلی کی گران ساسو لیبیاٹری میں آئی کیرس گروپ کے ترجمان سینڈرو سینٹرو کا کہنا ہے ’ہمارے نتائج سکول میں سیکھے جانے والی روشنی کی رفتار سے ملتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’میں نے نتائج پر شروع سے بھروسا نہیں کیا تھا۔ میرے خیال میں وہ کچھ حیرت انگیز شائع کرنے کی جلدی میں تھے اور آخر میں ان کا حساب غلط ثابت ہوا۔‘