میں اپنے اردگرد نظر دوڑائوں تو ہر طرف عجیب نفسا نفسی, پریشانی, ڈپریشن, بے سکونی اور ایسی ہی مضحمل کر دینے والی صورتِحال نظر آتی ہے۔ یہ ساری دنیا کسی میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہی ہے جہاں ہر کوئی لڑ تو اپنے اپنے طریقے سے رہا ہے مگر سب کا مقصد ایک ہے۔ اور مقصد ہے survival۔ دورِحا ضر کا ہر انسان اس world war III میں شاملِ کردار نظر آتا ہے۔ سب ایک نا ختم ہونے والی دوڑ میں شریک اندھا دھند بھا گتے جا رہے ہیں۔ survival اور status کا ایک ایسا منہ زور طوفان اور جنون ہے کہ وہ سر سے پائوں تک حرص و حریص کی گرد میں اٹے ہیں کہ نا تو انھیں کچھ سنائی دیتا ہے اور نا دکھائی۔
Nuked Washington DC – World War III
بس ہر کسی کو دوسرے پر فوقیت حاصل کر لینے کی چاہ نے دیوانہ کر رکھا ہے ۔ سب ایک دوسرے کو کچلتے , مسلتے , دھکیلتے, حق مارتے , ڈاکے ڈالتے, رشوت دیتے ,لیتے, غلط کاریاں کر تے , حرام کھاتے اور نجانے کیا کیا کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ صرف پیسے اور سٹیٹس کے لیے۔
ذرا سو چئیے ایسا کیوں ہے؟ کہ ہر انسان survival))کے لیے ایک لا محدود دوڑ میں لگا ہوا ہے جسے میرے نزدیک world war III) )کہنا غلط نہیں ہے۔جب کہ ناشکرے انسان کی ناقص عقل اپنے رب کے ارشاد پہ غورنہیں کرتی ارشادِباری تعالیٰ ہے کہ اگر میں تمھارا رزق روک لوں تو وہ کون ہے جو تمھیں رزق دے؟ اسی طر ح رسولۖ نے فرمایا , اگر تم لوگ اللہ پر اس طرح بھروسا کرو جیسے اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے تو وہ تمھیں اس طرح رزق دے جیسے پرندوں کو رزق دیتا ہے۔ وہ صبح (گھونسلوں سے ) بھو کے روانہ ہو تے ہیں اور شام کو سیر ہو کر آتے ہیں۔ ,
تو گویا رزق کی ذمہ داری تو خود اللہ لے رہا ہے وہ انسان سے وعدہ کر رہا ہے کہ اس کا رزق اس تک پہنچ کر ہی رہے گا پھر انسان کیوں نہیں سمجھتا ؟ کیا وہ اپنی عقل و طاقت کے بل بو تے پر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ رزق حاصل کرلے گا جتنے کا وعدہ اس کے رب نے کیا ہے؟ یقینا نہیں ۔ ایک رزق وہ ہوتا ہے جو انسان کے پیچھے بھاگتا ہے , ایک وہ ہوتا ہے جس کے پیچھے انسان بھاگتا ہے ۔ اور پھر وہ اپنی عقل اور سوچ سے تخلیق کیے رزق کے پیچھے ایسی اندھی آنکھ سے بھاگتا ہے کہ اسے خود کے پیچھے بھاگتا رزق دکھائی ہی نہیں دیتا اور پھر وہ غلاظتوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے ۔ اس مقام پر اب چاہے وہ حلال روزی کمائے یا حرام , اسے فرق نہیں پڑتا کیونکہ حلال اور حرام کے درمیان بس ایک ہی چیز حائل ہوتی ہے زندہ و اجاگر ضمیر ۔ جیسے ہی خواہشات , لالچ و حریص کا منہ زور سیلاب اسے ڈھا دیتا ہے تو پھر حلال و حرام کے درمیان کا فرق مٹ جاتا ہے۔ تو ایسے اس نئی جنگ کے چھڑنے کی وجہ انتہائی صاف ہے کہ انسانی حرص بڑھ گئی ہے اس نے اپنی خواہشات کو ضروریات کا درجہ دے دیا ہے اور یہ اتنی لا محدود ہیں کے محدود سی زندگی ختم ہو جاتی ہے مگر یہ بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑتی رہتی ہیں۔ تبھی آج کا انسان خواہشات کو drive نہیں کرتا بلکہ خواہشات اسے driveکرتی ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ , کامیاب وہ ہے جسے اسلام کی ہدایت مل گئی , ضرورت کے مطابق رزق مل گیا اور وہ اس پہ قا نع ہو گیا,۔
اور ہم نے قناعت کی بجائے بے لگام خواہشات کو ضروریات کا لیبل لگا دیا ہے ۔ اس معاملے کی نسبت حضور پاکۖ نے فرمایا ۔, جس کی صبح اس حال میں ہو ئی کہ اسے بدن میں عافیت , اپنے بارے میں امن اور دن بھر کی خوراک حاصل ہو , اسے گویا پوری دنیا جمع کرکے دے دی گئی۔ ,
اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ہم میں سے بیشتر کی صبح اسی حالت میں ہوتی ہے بات تو صرف ماننے اور شکر گزاری کی ہے۔ نبی کریم ۖکا ارشا دہے , (دنیا میں) اپنے سے نیچے والے کو دیکھو, اپنے سے اوپر والے کو نہ دیکھو, اس سے یہ ہوگا کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے۔ ,
جبکہ ہم دن رات یہی مانپتے رہتے ہیں اور پھر صبح ہوتے ہی دوبارہ سے ریس شروع کر دیتے ہیں مال میں دوسرے پر برتری لے جانے کی ریس۔ ایسی بیمار سوچ رکھنے والے انسانوں سے جو ایسے میں پھر حرام کماتے ہیں, ہمدردی اوران کے حق میں دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ وہ رب جس نے انھیں تخلیق کیا رازق تو وہ ہے ۔ اگر وہ ایک پتھر میں موجود کیڑے کو رزق مہیا کر سکتاہے تو کیا وہ ایک چلتے پھرتے , کوشش کر تے انسان کو رزق نہیں دے گا؟
ارشادِ نبویۖہے۔, امارت سامان کی کثرت سے نہیں ہوتی , بلکہ امیری تو دل کی امیری ہے۔,
Muhammad SAW
دولت مند وہ ہے جس کا دل دولت مند ہے ایسا آدمی تھوڑے سے مال سے اتنی خوشی حاصل کر لیتا ہے جو حریص آدمی کو بہت زیادہ مال سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔ پیسہ یقینا غیر اہم نہیں ہے اس کی اہمیت اپنی جگہ بجا سہی اعتراض یہ ہے کہ اپنی بے جا فضول و غیر اہم خواہشات کے لیے ایسے راستے اختیار نہ کیے جائیں جو آپ کو گمراہوں میں سے کر دیں کہ جسم ڈھانپنے والے کپڑے سے لے کر پکنے والے کھا نے تک میں حرام کی آمیزش ہو۔ کیو نکہ سب کر نے کہ بعد بھی رازق تو وہ ہی رہے گا ,جس نے ہمیںحلق کیا۔ تو پھر اس کے دئیے ہو ئے رزق کو چیلنج کر نے کا فائدہ ؟؟؟ عقل مندی یہی ہے کہ عطا کر دہ وسائل پر قناعت کی جائے اورانھیں بھرپور طریقے سے جیا جائے ۔ کیو نکہ زیادہ حاصل کر لینے کی خواہیش نے ہمیں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم کر دیا ہے اور اسکی جگہ حسد, بغض , کینا, ٹینشن, ڈپریشن اور کمپلیکس نے لے لی ہے۔
ہمیں ایک ہی زندگی عطا کی گئی ہے اسے ان سب کی نظر نہ کریں بلکہ اپنے ایمان اور اللہ کے درمیان تعلق کو مضبوط کئجیے۔ تعلق بھلا کمزور ہو مگر صدقِ دل سے ہو تو سہی ۔ ممکن ہے کہ آگاہی کے کسی لمحے وہ تعلق انتہائی مضبوط ہو جائے۔ کیونکہ بندہ جب رب کی طر ف ایک قدم بڑھاتا ہے تو وہ دس قدم اپنے بندے کے قریب آجاتا ہے۔یقینا وہ جاننے والا, سننے والا, رحم کر نے والا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ کتنی سچائی سے اس کی طرف پلٹتے اور اس کے سامنے ماتھا ٹیکتے ہیں ۔ اپنا رابطہ اور امید اس رب سے جوڑ لئجیے ۔
ایک دفعہ پوری سچائی اور ایمان کے ساتھ اس پر بھروسہ کئجیے اس کی طرف رجوع کئجیے۔ یقین جانئیے پھر آپ کو کسی اور بھروسے , یا سہارے کی طرف رجوع کرنے کی حاجت باقی نہیں رہے گی۔
یہاں تک کہ آپ کی تمام مادہ پرستی ایک وقت پر خود ہی دم توڑ جا ئے گی پھر آپ کو حرام جیسی لعنت اور survivalکی اس جنگ سے بھی نجات مل جائے گی۔
یہ جو میری حالت ہے میں نے بنائی ہے مگر جیسا توں چاہتا ہے اب مجھے ویسا کر دے میرے ہر فیصلے میں تیری رضا شامل ہو جو تیرا حکم ہو وہ میرا ارادہ کر دے ضائع ہونے سے بچالے میرے معبود مجھکو یہ نہ ہو کے وقت مجھے کھیل تماشا کر دے