وزیراعظم کے اعلانات، عمل درآمد کب ہو گا

gilani

gilani

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا یہ انکشاف کہ کراچی میں ہزاروں کنال سرکاری زمینوں کو ناجائز قابضین سے چھڑانے کے لیے سیکوریٹی فورسز کو ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے، ظاہر کرتا ہے کہ بعد از خرابی بسیار ان کی حکومت بالآخر کراچی کے برسوں سے بگڑتے حالات کو درست کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ کراچی میں سرکاری زمینوں پر قبضے کا سلسلہ ایک وبا کی طرح پیپلز پارٹی کے موجودہ دور حکومت ہی میں پھیلا ہے۔ اس سے پہلے یہ کام کم از کم اس طوفانی رفتار سے نہیں ہورہا تھا جس کا مظاہرہ اس دور میں ہوا۔ عالم یہ ہے کہ سرکاری زمینوں پر قبضہ ایک منظم کاروبار اور باقاعدہ کلچر بن گیا ہے اور اس میں حکمراں سیاسی جماعتوں سمیت متعدد بااثر گروپ شامل ہیں۔
حکومت اگر پہلے دن سے اپنی ذمہ داری محسوس کرتی، سرکاری اہلکار اس جرم کے ارتکاب میں تعاون نہ کرتے اور صوبائی و وفاقی حکومت کے ذمہ داران چشم پوشی سے کام نہ لیتے تو ہزاروں کنال سرکاری زمینوں پر قبضہ ہرگز ممکن نہ ہوتا۔ سرکاری زمینوں پر قبضے کی وجہ سے مختلف سرکاری محکموں کو جس سنگین صورت حال کا سامنا ہے، پاکستان ریلوے اس کی ایک عبرتناک مثال ہے ۔ریلوے کی بلامبالغہ کھربوں روپے کی زمینوں پر ناجائز قبضہ ہے اور حساب کتاب کیا جائے تو شاید یہ رقم ریلوے کے مجموعی قرضوں کی رقم سے بھی زیادہ ہوگی۔ اگر ریلوے کی زمینیں واگزار ہوجائیں اور ان سے درست طور پر استفادہ کیا جائے تو یہ تباہ حال محکمہ اپنے تمام مسائل کو اپنے ہی وسائل سے حل کرنے کے قابل ہوسکتا ہے۔
اسی طرح جن دوسرے محکموں کی زمینوں پر ناجائز قبضے ہیں ، زمینوں کی واپسی کی صورت میں انہیں بھی اپنے معاملات خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے وافر وسائل مہیا ہوسکتے ہیں۔ زمینوں پر قبضے کے کلچر کا کراچی کی بدامنی اور خوں ریزی سے بھی گہرا تعلق ہے۔ لینڈ مافیا کی اصطلاح اسی صورت حال کی نمائندگی کرتی ہے۔سرکاری زمینوں پر قبضے کی داستانیں میڈیا برسوں سے سامنے لارہا ہے اور یقینی طور پر حکومت اپنے ذرائع سے بھی ان واقعات سے پوری طرح باخبر چلی آرہی ہے۔ اگر اس ناپاک مشغلے کو پہلے دن ہی سے روکا جاتا تو کراچی میں بدامنی کا ایک اہم سبب جنم ہی نہ لے پاتا۔ بہرحال اب وزیر اعظم کی جانب سے کراچی میں ہزاروں کنال سرکاری زمینوں کو ناجائزقابضین سے واگزار کرانے کے اعلان کو دیر آید درست آید قرار دیتے ہوئے ہم یہ انتباہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اس اعلان پر عمل درآمد پوری غیرجانبداری اور اپنے پرائے کی پروا کئے بغیر نہ کیا گیا تو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ وزیراعظم نے جمعہ کے روز بھی کراچی کی صورت حال پر بات کی تھی اور دعوی کیا تھا کہ کسی پارٹی کا مسلح ونگ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
کراچی میں بھتہ مافیا، دہشت گردوں اورجرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں بدامنی کے بے قابو ہوجانے کا اصل سبب اسلحے کی ریل پیل ہے۔ اس میں بغیر لائسنس ہی کا نہیں لائسنس یافتہ اسلحہ بھی شامل ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر لائسنس سیاسی بنیادوں اور سفارشوں پر جاری کیے گئے ہیں۔ یہ تمام ا سلحہ امن و امان کی صورت حال کو سنگین تر بنانے کا سبب بنتا ہے ۔ اگر لوگوں کے پاس خودکار ہتھیار نہ ہوں تو لوٹ مار اور قتل و غارت گری، اغوا برائے تاوان سمیت تمام ہی جرائم میں نمایاں کمی کا واقع ہونا یقینی ہوجائے گا۔ لہذا ہرقسم کے اسلحے پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے اور اس کا اطلاق قطعی غیرجانبداری کے ساتھ ہر ایک پر ہونا چاہیے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کراچی کی صورت حال پورے ملک کو براہ راست متاثر کرتی ہے کیونکہ یہ شہر ملک کی اقتصادی شہ رگ ہے۔ اس میں ملک کے ہر خطے کے لوگ آباد ہیں ، اسی لیے اسے منی پاکستان کہا جاتا ہے۔ کراچی کا امن پورے ملک کے لیے امن و سکون کا باعث ہوتا ہے اور اس شہر کی بدامنی اور خوں ریزی پوری قوم کے لیے مسائل اور مشکلات کا سبب بنتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب فوج کا ادارہ بھی برملا کراچی کے حالات پر تشویش کا اظہار کررہا ہے۔گزشتہ روز فوج کے ترجمان نے پرزور لہجے میں کہا ہے کہ کراچی کے حالات پر فوج کو تشویش ہے اس لئے کراچی میں ہر قسم کا تشدد ختم ہونا چاہیے۔فوجی ترجمان کے یہ الفاظ نہایت معنی خیز ہیں کہ معاملات بے لگام نہیں چھوڑے جاسکتے،آپریشن ہو یا کوئی اور قدم اٹھایا جائے حکومت کے پاس کراچی میں دیرپا امن اور ہم آہنگی قائم کرنے کا یہ آخری موقع ہے ۔ کوئی محب وطن اور باشعور پاکستانی نہیں چاہتا کہ معاملات کو درست کرنے کے لیے فوج مداخلت کرے لیکن سیاسی حکومت کی جانب سے اپنی نااہلی کے ذریعے فوج کو اس کے لیے مجبور نہیں کیاجانا چاہیے۔ لہذا جمہوری تجربے کو ناکامی سے بچانے کے لیے اب وزیر اعظم کو انتہائی سنجیدگی اور احساس ذمہ داری سے کام لینا ہوگا۔ کراچی کی صورت حال ان کے تدبر اور فراست کا ایک بڑا امتحان ہے۔ وہ لیت و لعل میں ساڑھے تین سال ضائع کرچکے ہیں ۔ اب ان کے پاس جو تھوڑی سی مہلت رہ گئی ہے اس میں انہیں کراچی کے حالات بہتر بنانے کے لیے تمام وقتی ، ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر صرف ملک اور قوم کے مفادکے لئے کام کرنا چاہیے۔
کراچی ہی نہیں فی الحقیقت ان کی حکومت کی کارکردگی کسی بھی شعبے میں قابل فخر نہیں ہے۔ کرپشن پوری سرکاری مشینری کو کھوکھلا کرچکا ہے۔ ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔ ریلوے ، قومی ایئرلائن، پاکستان اسٹیل، واپڈا، کے ای ایس سی،سب ہی کا حال ناگفتہ بہ ہے۔ برسات کا موسم ہرسال کی طرح اس بار بھی حکومت کے حسن کارکردگی کے دعووں کی قلعی کھول رہا ہے۔ بارشیں شروع ہوتے ہی سندھ میں بند اور پشتے ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گئے اور غریب عوام سیلابی ریلوں کی بھینٹ چڑھنے لگے ہیں ۔ آخر یہ کیسی حکمرانی ہے جو کبھی کسی آزمائش پر پوری نہیں اترتی اور وقت پڑنے پر اس کی ہر چیز ٹوٹی پھوٹی ملتی ہے۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود اپنے اصل فرائض کی بحسن و خوبی ادائیگی کی فکر کے بجائے وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے دوسری سیاسی قوتوں کے ساتھ غیرضروری چھیڑچھاڑ کی جا رہی ہے جس کی ایک مثال سرائیکی صوبے کا شوشہ اور بے وقت کی راگنی ہے۔
ظاہر ہے کہ اس طرح کی سیاسی شرارتوں سے سیاسی ماحول میں کشیدگی بڑھتی ہے اور مسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھ جاتے ہیں۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ وزیر اعظم وقت کی نزاکت کو سمجھیں ، حالات کی بہتری کے لیے پوری سنجیدگی سے کام کریں اور کراچی میں امن و امان کی مستقل بحالی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کریں کیونکہ کراچی میں پائیدار امن وامان اور بھائی چارے کے ماحول کی بحالی سے اس ملک کے کم از کم آدھے مسائل تو خود بخود حل ہوجائیں گے اور وزیر اعظم اس حوالے سے اپنے رب، پاکستانی عوام اور تاریخ سب کے سامنے جوابدہ ہیں۔
پاکستان اور بھارت نے غلطی سے سرحد عبور کرنے والے قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ کرلیا ہے اور ستمبر کے دوسرے ہفتے میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں تمام معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی۔وزارت داخلہ کے مطابق دونوں ملکوں نے غلطی سے زمینی اور سمندری سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر گرفتار قیدیوں کی رہائی کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔ دونوں ہمسایہ ملکوں نے سزا پوری کرنے والے اور نیشنل سٹیٹس کلیئر ہونے والے قیدیوں کی فہرستیں بھی مرتب کرلی ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان غلطی سے زمینی سرحد عبور کرنے کا مسئلہ عشروں پر محیط ہے لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ بھارت میں ایسے اکثر پاکستانیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا یہاں تک کہ کئی قیدی ہلاک ہوگئے اور کئی دماغی توازن کھو بیٹھے لیکن اس کے برعکس پاکستان نے کسی بھی بھارتی قیدی کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ انہیں تمام سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ باعزت طور پر بری کرکے بھارتی حکام کے حوالے کیا جاتا رہا۔ بعض نجی فلاحی اداروں نے کئی بھارتی قیدیوں کو پھولوں کے ہاروں سے لاد کر واپس بھارت بھیجنے کا مظاہرہ کیا، یہی صورتحال کنٹرول لائن پر بھی پیش آتی رہی جہاں کشمیری قیدیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور انہیں دہشتگرد اور مداخلت کار قرار دے کر قید و بند کی اذیت ناک صورتحال سے دو چار کیا گیا۔
اب آکر دونوں ملکوں کے درمیان غلطی سے سرحد عبور کرنے والے قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے تو حکومت پاکستان کو بھارتی حکام کے سامنے ان قیدیوں پر ہونے والے وحشیانہ تشدد کے ازالے کا مسئلہ بھی اٹھانا چاہئے صرف قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ کافی نہیں بلکہ قید کے دوران ان سے ناروا سلوک کی روایت بھی ترک کرنا ہو گا۔