جس دن سے موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے اُس وقت سے ہی اِس کے صدر ہوں یاسابقہ اور موجودہ وزیراعظم اور اِنہی کی طرح اِس حکومت کے وزراء ہوں کہ مشیریا سینٹ سمیت قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ہوں یا برسرِ اقتدار جماعت کے ملک کے طولُ ارض میں پھیلے ہوئے جیالے ہی کیوں نہ ہوں اِن سب کے لہن سے کثرت سے یہ ایک ہی جملہ سُننے کو مل رہاہے کہ ” جمہوریت بہترین انتقام ہے”یہا ںبحیثیت ایک عام پاکستانی شہری ہونے کے ناطے میر ی سمجھ میں یہ بات تو آج تک نہیں آسکی ہے کہ یہ سب لوگ ” جمہوریت کو بہترین انتقام ”کیوں کہہ رہے ہیں اورکس کے لئے یہ جمہوریت جیسے مثالی سسٹم کے ساتھ لفظ کابہترین اضافہ کرنے کے بعد اِس کے ساتھ لفظ انتقام نتھی کرکے جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دے رہے ہیں۔
جبکہ میں نے اور شائد آپ نے بھی جب سے پڑھنا سیکھا ہو گا اور جب بھی میری طرح آپ نے بھی کہیں جمہوریت کی تعریف پڑھی یا کبھی یاد کی ہوگی یا اِس حکومت کے پونے پانچ سالہ دورِ اقتدار سے قبل کہیں پڑھا اور سُنا ہو گا تو جمہوریت سے متعلق یہی کہا اور لکھا جاتا رہا کہ ”جمہوریت ایک بہترین نظام حکومت ہے ”مگرنامعلوم کیوں پی پی پی کی موجودہ جمہوری حکومت نے جب سے اقتدار کی مسندپر اپنے قدم رنجا فرمائے ہیں تب سے ہی اِس نے جمہوریت کی تعریف بھی بدل کررکھ دی ہے …میں اِس حکومت کے گزشتہ پونے پانچ سالہ اُمورِ مملکت کو دیکھتے ہوئے اِس نتیجے پر پہنچ پایا ہوں کہ کہیں ہماری اِس حکومت نے جمہوریت کی تعریف میں تبدیلی اِس لئے تونہیں کی ہے کہ اِس کے ہاتھ میں جو اقتدار آیا ہے وہ ایک آمر جنرل کی آمریت کے چھٹکارے کے نتیجے میں ملا ہے ایسے میں اَب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برسرِ اقتدار حکومت اگرآمر جنرل سے انتقام کے لئے جمہوریت کو بہترین انتقام قراردیتی ہے توپھر اِس نے اقتدار کی کرُسی سنبھالنے کے بعد اُس آمر جنرل(ر) پرویزمشرف سے انتقام کیوں نہ لیا اور اِسے گارڈ آف آنر پیش کرکے باعزت طریقے سے کیوں جانے دیا…؟؟کہیںایساتو نہیں کہ ہماری یہ موجودہ جمہوری حکومت اپنی اِس سُبکی(آمرجنرل (ر)مشرف کی باعزت روانگی) کا انتقام اپنی معصوم اور نہتے اٹھارہ کروڑ عوام سے اِن کو مہنگائی، بھوک و افلاس، کرپشن و قتل وغارت گری، بجلی و گیس کے بحرانوں میں جکڑ کر اور اِن کی خوشیاں چھین کر لے رہی ہے …؟اگر ایسا نہیں ہے توپھر حکومت کو چاہئے کہ یہ جمہوریت کی تعریف اِس کی روح کے مطابق کرے اپنے ”انتقام” والے اُس عزم کے لحاظ سے مت کرے جو انتقام آمر سے لینے کے بجائے عوام کو طرح طرح کی پریشانیوں میں جکڑ کر لے رہی ہے ۔
بہرحال…!گزشتہ کئی دنوں سے کراچی میں تشدد کی جو لہر جاری ہے وہ حکمران الوقت کے لئے یقینا لمحہ فکریہ ہونی چاہے تھی مگرمجھے ایسالگ رہاہے کہ جیسے ہمارے حکمرانوں کو اِس کی جیسے کوئی پرواہ ہی نہیں ہے عوام اِن کے فرسود انتظامات اور اقدامات سے مریں یا دہشت گرد عناصرکے ہاتھوں معصوم انسانوں کے مقدس خون سے کھیلی جانے والی ہولی سے شہرقائد کے شہری مریں تو مریں اِن کا مقصدصرف عوام کی لاشوں پر اپنا اقتدار سنبھالنا اور حکومتی کُرسی پر ایلفی لگاکر چپکے رہناہے تب ہی تو یہاں ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ کراچی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم انسانوں کی ہونے والی قتل وغارت گری پر ” پچھلے دنوں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سکھر ائیرپورٹ پرمیڈیا پرسنز سے بات چیت کرتے ہوئے افسوس کا اظہارکرنے کے بجائے انتہائی معصومیت اور اپنے سیاسی تدبر سے یہ تک کہہ دیا کہ”کراچی کی صُورتِ حال اتنی خراب نہیں جس قدر میڈیا اور اخبارات میں پیش کی جارہی ہے۔
اپنی اِسی بات کی وضاحت میں اُنہوں نے مزید کہاکہ کوئی اخبار مرنے والوں کی تعداد سات تو کوئی پانچ بتاتا ہے اور اِن کا کہنا تھا کہ کچھ قوتیں سندھ حکومت کو غیر مستحکم کرناچاہتی ہیں جو سندھ میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے گڑ بڑ کرا رہی ہیں..”میرے نزدیک اَب ایسابھی نہیں ہے جیساآپ فرما رہے ہیں بلکہ میں یہ کہتاہوں کہ میڈیا آج جو کچھ بھی کہہ رہا ہے وہ من و عن سچ ہے جب کہ سائیں آپ کے یہ جملے قابلِ مذمت ضرور ہیں کیوں کہ کیا ہی اچھا ہوتاکہ یہ وزیراعلیٰ سندھ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے آپ حضرت عمرفاروق کے اِس قول کو پڑھ لیتے کہ ” میرے دورِ حکومت میں دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسہ مرجانے کا ذمہ دار میں ہوں ” تو شاید سید صاحب ایسی بات نہ کرتے جیسی آپ نے سکھر ائیر پورٹ پر کی ہے اور ہاں یہ آپ ہی کاتو دورِ حکومت ہے کہ جنوری 2012 سے اِن سطور کے رقم کرنے تک 2565 افراد ہلاکت ہوچکے ہیں یعنی اگر رواں سال کے ساڑھے دس ماہ کا تناسب نکالا جائے تو روزانہ 170 کے قریب افراد دہشت گردوں کے ہاتھوں موت کی وادی میں جاکر قبر کی آغوش میں سو چکے ہیں اور اِس موقع پر میں وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ کو یہ بھی باورکرنا ضروری سمجھتاہوں کہ بقول آپ کے اگر کراچی کی صُورتحال اتنی خراب نہیں ہے جتنی میڈیا پیش کررہا ہے۔
MQM
تو جناب آپ اِس بات کا بھی تو جواب دیں کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں حکومت کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور اے این پی نے کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صُورتحال اور ٹارگٹ کلنگ پر واک آوٹ کیوں کیا … ؟ اور شہرقائد کی واحد نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے حکومت کو حالات ٹھیک کرنے کے لئے 24گھنٹے کاالٹی میٹم دیتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ کراچی میں ایمرجنسی نافذ کی جائے ، حالات پر فی الفور قابو نہ پایا گیا تو پوری سیشن کا بائیکاٹ کیا جائے گا اور وزیراعظم کراچی جاکربیٹھیںاور متعلقہ اداروں کو حرکت میں لائیںجبکہ عوامی نیشنل پارٹی نے شہرقائدمیں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ کراچی کے حالات کی بہتری کے لئے فوجی آپریشن کے سواکوئی حل نہیںہے…” اگراِس کے باوجود بھی وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کراچی کے حالات اور صُورتحال ٹھیک ہے تو میں یہ سمجھتاہوں کہ وزیراعلیٰ سندھ کو اپنے اِس غیر ذمہ دارانہ بیان پر شہرقائد کے ڈرے سہمے معصوم عوام اور دہشت گردی کی نظر ہو جانے والے نہتے انسانوں کے لواحقین سے ضرورمعذرت کرنی چاہئے اور کراچی کے حالات کو ٹھیک کرنے میں سنجیدگی سے حقیقی معنوں میں اپناکردار اداکرناچاہے ۔
جبکہ یہاں کراچی میں ایک ہفتے سے جاری قتل وغارت گری اور حالات کے حوالے سے کسی حد تک ایک حوصلہ افزاپیش رفت یہ سامنے آئی ہے کہ سیاسی مصالحت اور مخمصوں کی دیواریں گراتے ہوئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی اسلام آباد میں ہونے والے ایک اہم اجلاس میں کراچی کے بگڑتے ہوئے حالات پر تشویش کا اظہار کردیا ہے اِن کے چہرے پر چھائی اداسی اور اپنے حکومتی اتحادیوں ایم کیو ایم کی جانب سے دینے جانے والے الیٹی میٹم اور اے این پی کی طرف سے کئے جانے والے مطالبے سے مجھے یہ محسوس ہواکہ جیسے وزیراعظم تو کابینہ کے اراکین کے اجلاسوں میں شہرقائد میں فرقہ واریت کو ہوادینے والے دہشت گردوں کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے معصوم انسانوں کی ہلاکتوںپر ضرور پر یشان ہیں اور اِن کی یہ پریشانی یقیناشہرقائد کو دہشت گردوں سے پاک کرنے اور کراچی کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانے میں ضرور کوئی اہم کردار اداکرے گی۔