ٹھرہے پانی کو وہی ریت پرانی دے دے

pray

pray

ٹھرہے پانی کو وہی ریت پرانی دے دے
میرے مولا میرے دریا کو روانی دے دے

آج کے دن کریں تجدید وفا دھرتی سے
پھر وہی صبح وہی شام سہانی دے دے

تیری مٹی سے مرا بھی تو خمیر اٹھا ہے
میری دھرتی تو مجھے میری کہانی دے دے

وہ محبت جسے ہم بھول چکے برسوں سے !
اس کی خوشبو ہی بطور ایک نشانی دے دے

تپتے صحرائوں پہ ہو لطف و کرم کی بارش
خشک چشموں کے کناروں کو بھی پانی دے دے

دیدئہ دل جسے اب یاد کیا کرتے ہیں !
وہی چہرہ وہی آنکھیں وہ جوانی دے دے

جس کی چاہت میں حسن آنکھیں بچھی جاتی ہیں
میری آنکھوں کو وہی لعل یمانی دے دے

حسن رضوی