میرے خیال میں مجھے اب اعلان کرنے میں تاخیر نہیں کرنا کہ میں ایک ماہر اقبالیات ہوں کیونکہ گزشتہ 30 برس سے سال میں چار مرتبہ یوم اقبال کے موقع پر میں اقبال کے حوالے سے اپنے افکار عالیہ فرزندان توحید کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے سامنے بیان کرتا ہوں میں نے ہزار بارہ سو کے مجمع کو ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اسلیے قرار دیا ہے کہ اس میں ہر شخص اپنی جگہ پر ایک پورا جلسہ ہوتا ہے۔
اسی طرح خود کو ماہر اقبالیات ڈکلئیر کرنے کی بھی وجہ یہ ہے کہ بہت سے دوسرے ماہرین اقبالیات کیطرح مجھے بھی اقبال کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔
ہم نابینوں کا ہاتھ اس ہاتھی کے جسم کے جس حصے پر جا پڑتا ہے، ہم اسے مکمل اقبال قرار دے ڈالتے ہیں۔ چنانچہ ” ملا ” اسے ” ملا ” اور مسٹر اسے ” مسٹر ” سمجھتا ہے۔ حالانکہ وہ نہ ” ملا ” ہے اور نہ ” مسٹر ” کیونکہ ” ملا ” کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ آگے کیا ہو رہا ہے اور مسٹر کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے۔
” ملا ” نے مسلمانوں کو آج اور مستقبل میں پیش آنیوالے مسائل سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور مسٹر ہمارے سارے ماضی کو رد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ جبکہ اقبال روشن ماضی میں سے روشن مستقبل کی واپسی تلاشتا اور تراشتا ہے۔ تاہم یہ امر اطمینان بخش ہے کہ اقبال کی عظمت کو دونوں مانتے ہیں۔
اسوقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان خصوصا اور عالم اسلام میں عموما قدیم اور جدید کی کشمکش تمام حدیں عبور کر کے قتل و غارت گری تک جا پہنچی ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی مسلمانوں کو دو الگ الگ خانوں میں تقسیم کیا جا چکا ہے اور یہ دن بدن ایک دوسرے سے دور سے دور تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
قرآن و سنت کو دونوں مانتے ہیں لیکن یہ دونوں فریق اسکی تشریح اپنے پہلے سے طے شدہ نظریات کی روشنی میں کرتے ہیں اور اس ضمن میں اپنے کسی ” امام ” کی رائے کو بھی قابل و اعتناء نہیں سمجھتے۔ سو ان دونوں طبقوں کے جن افراد نے اپنے دماغوں پر موٹے موتے قفل لگائے ہیں۔ ان سے مجھے کسی خیر کی توقع نہیں۔ البتہ دونوں فریقوں کے جن افراد نے اپنے دل و دماغ کے دریچے کھلے رکھے ہیں، اقبال ان کے درمیان پل کا کام دے سکتا ہے۔ چنانچہ میرے نزدیک آجکے دور کی سب سے بڑی ضرورت فکر اقبال کو عام کرنے کی ہے۔ اس میں ہمیں اپنے ماضی، حال اور مستقبل واضح طور پر نظر آتا ہے۔
Allama Mohammad iqbal
اگر اقبال عاشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے جو کہ ہم سب مانتے ہیں اور اگر اقبال مفسر قرآن ہے اور یہ بھی ہم سب جانتے ہیں تو پھر آپس میں جھگڑنے اور ایکدوسرے سے الجھنے کی بجائے ہم اسے اپنا ثالث بھی کیوں نہیں مان لیتے؟ بیسویں صدی میں اقبال سے بڑا عاشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور اس سے بڑا مفسر قرآن اور کوئی پیدا نہیں ہوا!
اور جہاں تک شاعر اقبال کا تعلق ہے تو میرے نزدیک اس قد کاٹھ کا کوئی شاعر بھی ہمارے ہاں موجود نہیں۔ مجھے اردو کے کلاسیکی شعراء میں سے اقبال کے بعد میر پسند ہے کہ دونوں کے ہاں سوزوگداز کی کیفیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ میر اور اقبال کا موازنہ ممکن نہیں کہ دونوں کا میدان ایکدوسرے سے مختلف ہے لیکن میر اگر میری خلوت کا ساتھی ہے تو اقبال میری خلوت اور جلوت دونوں کو اجالتا ہے۔
اس کی شاعری میرے اندر دھمالیں ڈالتی ہے اور مجھے لگتا ہے میں کسی ایسے خوبصورت جزیرے میں رنگ برنگے پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ میں سانس لے رہا ہوں جو حقیقت اور رومان کے متزاج سے وجود میں آیا ہے۔
اقبال اردو شاعری کا واحد بین الاقوامی ” فگر ” ہے چنانچہ اسکی شاعری کی چاب نہ صرف یہ کہ دنیا کی بیسیوں زبانوں میں سنائی دے رہی ہے بلکہ بلاتمیز رنگ و نسل و مذہب و ملت اسکی شاعری کے عاشقوں کی تعداد ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔
میں یہاں اقبال کی شاعری کے اس حصے کی بات نہیں کر رہا جس کی انقلابی جھنکار پر عالم اسلام میں بیداری کی لہر اٹھی اور انہوں نے پاؤں کی زنجیریں کاٹ ڈالیں۔ میں تو صرف اس اقبال کی بات کر رہا ہوں جسکی شاعری میں ہزاروں کتابوں کا علم ہے مگر یہ علم گرم مصالحے کیطرح اسکی شاعری پر تیرتا نظر نہیں آتا بلکہ اس میں رچ بس کر اسے خوش رنگ، خوش ذائقہ اور ارفع و اعلیٰ بنا دیتا ہے۔
خواتین و حضرات! مجھے لگتا ہے کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں کیونکہ اس سے پہلے میں سنجیدہ باتیں تو کرتا رہا ہوں لیکن اتنے سنجیدہ پیرائے میں کبھی نہیں کیں، تاہم آپ سے میری گزارش ہے کہ آپ میرے بوڑھا ہونے والے بیان کو سنجیدگی سے نہ لیں بلکہ اسکے جواب میں وہی کہیں جو اس موقع پر مروتا کہا جاتا ہے کہ صاحب! آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ابھی تو آپ ماشاء اللہ جوان رعنا ہیں اور آپ کے عقد ثانی کے دن ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہ ہلا شیری اس لیے بھی ضروری ہے کہ ناتواں کو ناتواں کہنے سے اسکی ناتوانی دور نہیں ہو جاتی بلکہ اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسوقت اقبال کا پاکستان کچھ شعبوں میں بہت طاقتور اور کچھ شعبوں میں بہت ناتواں ہے لیکن اسکی ناتوانی کو طاقت میں بدلنے کی ضرورت ہے۔
اقبال مایوسی کا نہیں، امید کا شاعر ہے۔ وہ ناتواں ممولے کو بھی یہ نہیں کہتا کہ موت تمہارے قریب پہنچ چکی ہے بلکہ وہ اس ممولے کو شہباز سے لڑانے کی بات صرف ممولے کا اعتماد بحال کرانے کیلئے کرتا ہے۔ تاہم اس سے امید رکھتا ہے وہ پہلے ڈنڈ بیٹھکیں نکالے آگے یہ ممولے کی عقل پر منحصر ہے کہ وہ شہباز کے مقابلے کیلئے تیاری کر کے میدان میں اترنا ہے یا ممولے کا ممولا ہی رہتا ہے اور شاہین پر جھپٹ پڑتا ہے۔ اقبال کے اس نوع کے کلام کو اس اینگل سے ہی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
Pakistan Politics
آخر میں آج ہی موصول ہونیوالی ایک ایس ایم ایس کا تذکرہ ضروری ہے۔ ایس ایم ایس کے مطابق ایک رکشے کے پیچھے لکھا ہوا تھا۔ ” ہارن آہستہ بجائیں پاکستان قوم سو رہی ہے۔” یہ ایس ایم ایس دلچسپ ہے مگر مجھے اس سے اختلاف ہے۔ قوم کو سویا رہنے دیا جائے کیونکہ میرے نزدیک اسے نیند سے بیدار کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ سوئی رہی تو لوٹ مار، کرپشن، مہنگائی اور بلوں میں اضافہ ہوتا رہیگا بلکہ بجلی کے بلوں کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ ایک دن واپڈا والوں نے سورج کو بھی بل بھیج دینا ہے۔
سو اس قوم کو جگانا ضروری ہے اور بجائے اسکے کہ خدانخواستہ صور اسرافیل اسے جگائے، اسے کیوں نہ علامہ اقبال سے جگایا جائے؟ کہ یہی وہ شاعر ہے جو مردہ جذبوں کو زندہ کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ ( لاہور میں ایوان اقبال کے زیر اہتمام منعقدہ یوم اقبال میں پڑھا گیا )