عراق میں صدام حسین حکومت کی معزولی،افغانستان میں طالبان اقتدارکے خاتمے ، اُسامہ بن لادین کی شہادت،پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے اور لیبیا میں قذافی دور زوال کے بعد بھی امریکی خون آشام بھیڑیانئے اور تازہ خون کا متلاشی ہے،اُس کی جارحیت اور سفاکی کی شعلے ابھی سرد نہیں ہوئے،اب اُس کے ظلم و بربریت کا سفر اُس فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے جارہا ہے جس کا اظہار محب وطن حلقے،اہل علم ودانشور اوروطن پرست میڈیاو صحافی عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں اور آج اُن کے وہ خدشات کہ ”نائن الیون بہانہ، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان اصل نشانہ” ،حقیقت کا روپ دھارتا نظر آرہا ہے،رفتہ رفتہ اُس کے لہجے میں وہ ہی انداز آتا جارہا ہے جو اُس نے صدام حسین کے خلاف جارحیت سے پہلے اپنایا تھا،آپ کو یاد ہوگا کہ صدام حسین پہلے امریکہ کا حلیف اور ایران کے خلاف اُس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا،لیکن جب امریکی مقاصد پورے ہوگئے تو صدام کے روابط اور سرگرمیاں مشکوک ہوگئیں، پھر اچانک امریکہ پر انکشاف ہوا کہ صدام کے پاس دنیا اور خصوصاً امریکہ کو وسیع پیمانے پر نقصان اور تباہی پہنچانے والے جوہری و کیمیائی ہتھیار موجودہیں پھردیکھتے ہی دیکھتے امریکہ کا لہجہ نہایت درشت سے درشت تر ہوگیا اور نتیجہ صدام کی معزولی اور پھانسی پر منتج ہوا،لیکن وہ تباہی پھیلانے کیمیائی ہتھیار آج تک دنیا کے سامنے نہ آسکے،اب ذرا موجودہ حالات پر غور کیجئے تو ہمیں بعینہ وہی صورت نظر آتی ہے جوکل عراق کے ساتھ تھی، پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی ہے، لیکن امریکہ کا رویہ پاکستان کے ساتھ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کل عراق کے ساتھ تھا،امریکہ پاک فوج کو دباؤ میں رکھنے کیلئے مسلسل ایسے الزامات لگارہا ہے جیسے کہ پاکستان، افغانستان اور امریکہ میں دہشت گردی کا اصل سبب ہے،امریکی انتظامیہ کے تازہ فرمودات اُسی نفسیات کا مظاہرہ کررہے ہیں جو اُنہوں نے ماضی میں عراق کے ساتھ اپنائی تھی،آج امریکی عہدیداروں کے بیانات یہ ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان ہی دراصل ساری دہشت گردی کروا رہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کی اصل قوت حقانی نیٹ ورک ہے،جس نے آئی ایس آئی کی مدد سے کابل میں امریکی سفارت خانے اور ہوٹل پر حملے کیے،اِن بیانات میں پاکستان کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرناک بات یہ بھی کہی گئی کہ پاکستان نے تشدد برآمد کرکے اپنی داخلی سلامتی خطرے میں ڈال لی ہے،گویا اِن بیانات کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا کی بدمعاش ترین اور تخریب کار قوت القائدہ یا طالبان نہیں بلکہ آئی ایس آئی ہے جو اِن قوتوں کی مدد سے دنیا بھر میں دہشت گردی کررہی ہے۔ حالانکہ خود امریکیوں کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں جتنی بھی عسکریت پسند اوردہشت گرد تنظیمیں ہیں ،وہ سب سی آئی اے نیٹ ورک سے تعلق رکھتی ہیں،تحقیق کرنے والے تو یہاں تک لکھ چکے ہیں کہ امریکی خفیہ اداروںکا اُسامہ بن لادین، صدام حسین، القائدہ، طالبان اور لیبیا کے سابق صدر قذافی تک سے رابطہ تھا اور یہی ادارے دنیا بھر میں امریکی مفادات کیلئے دہشت گردی کو فروغ دیتے رہے ہیں، سب جانتے ہیں کہ دنیا میں گذشتہ کئی عشروں سے صرف امریکی خفیہ ادارے ہی دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں،جبکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم بھی امریکی سی آئی اے کے ماتحت ہی پاکستان سمیت مختلف ممالک میں تخریبی کاروئیاں کررہی ہے ،لیکن اِن ناقابل تردیک حقائق کے باوجود جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ ہے،انسداد دہشت گردی اورامریکہ کو محفوظ بنانے کے جھوٹے پروپیگنڈے کی آڑ لے کر امریکہ دنیا بھر اسلام پسند قوتوں کے خلاف دندتا پھر رہا ہے، ویسے بھی امریکہ کی یہ روایت رہی ہے کہ جب تک اُس کے احکامات کی پابندی اور جائز اور ناجائز اور خواہشات کا احترام کیا جاتا ہے ،امریکہ دوستی کا دم بھرتا ہے ،لیکن جونہی کوئی ملک اپنے قومی مفاد کی بات کر تا تو امریکہ الزامات،دھمکیوں اور ننگی جارحیت پر اتر آتا ہے ،جیسا کہ اُس کے موجودہ طرز عمل سے عیاں ہے، اِس تناظرمیں پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اوپر امریکی فوجی اور سیاسی قیادت کے الزامات اور پاکستان کے داخلی حالات کی سنگینی نے ملک کی سلامتی کوشدید خطرے میں ڈال دیاہے اور بظاہر پاکستان پرامریکی جارحیت کے سائے منڈلارہے ہیں،دوسری طرف ہماری سیاسی قیادت کا حال یہ ہے کہ وہ قوم کو اعتماد میں لینے اور حقائق سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی،بلکہ الٹا یہ سمجھتی ہے کہ امریکہ افغانستان کی جنگ پاکستان کے بغیر نہیں جیت سکتا اور ہم اُس کی لازمی ضرورت ہیں،دراصل یہی خام خیالی اور اور خود فریبی امریکی شہہ کا باعث ہے امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کے حکمران صرف ایک حدتک ہی مزاحمت کرتے ہیں اور بالآخر ہتھیار ڈال دیتے ہیں،یہی خطرہ ہمیں سابقہ آمری روایات کے امین موجودہ حکمرانوں سے بھی ہے،جبکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغان جنگ میں ناکامی کی وجہ سے امریکی فوجی اور سیاسی قیادت کو احتساب کا سامنا ہے،کیونکہ دس سال کی مارا ماری اور امریکی ٹیکس دہندگان کے کھربوں ڈالر جنگ کی بھٹی میں پھونک دینے کے باوجود امریکہ کو افغانستان میں سوائے ہزیمت کے کچھ حاصل نہیں ہوا،دوسری طرف امریکہ کو تاریخ کی بدترین کساد بازاری اور بے روزگاری کے خوفناک آتش فشاں کا بھی سامنا ہے،اِس صورتحال میں امریکی ڈیموکریٹ کے ذمہ داران یہ سمجھتے ہیں کہ اگر 2012ء کے انتخابی سال میں یہ زہریلا مواد پھٹ پڑا تو اُن کی پارٹی کی کامیابی کے سارے خواب بھسم ہوکر رہ جائیں گے،چنانچہ اپنے ملک کی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے اور آئندہ صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار کی کامیابی کو زیادہ مستحکم بنانے کیلئے افغانستان شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل اورجنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے بعد اب ایڈمرل مائیک مولن بھی(جو 30 ستمبر کو ریٹائرڈ ہونے والے ہیں)امریکہ کو افغان جنگ جیت کر نہیں دے سکے اور اب یہ شکست خوردہ سورما اوردنیا کی سب سے بڑے جنگجو اپنی شرمناک شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے اُس کی ذمہ داری پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر ڈالنا چاہتے ہیں،دراصل امریکہ ناٹو ہیڈ کوارٹر اور امریکی و مغربی ممالک کے سفارت خانوں پر طالبان حملوں سے بوکھلا گیا ہے اور اپنی شکست ماننے کوتیار نہیں، اِس لیے وہ پاکستان اور حقانی حریت پسندوں پر بہتان تراشی کرکے اپنی ہزیمت کی خفت مٹانا چاہتا ہے، اِس تناظر میںامریکی انتظامیہ کے حالیہ بیانات اِس خدشہ کو ہوا دے رہے ہیں کہ وہ شمالی وزیرستان پر کوئی بڑا حملہ کرنے والا ہے ، بالکل ویسے ہی جیسے اُس نے ویتنام سے فرار ہوتے ہوئے لاؤس اور کمبوڈیا پر ویتنام چھاپہ ماروں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے کا الزام لگاکر اُن کی شہری آبادیوں پر اندھادھند بمباری کی تھی اور دونوں ریاستوں کے دس لاکھ باشندوں کو ہلاک کردیا تھا،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی شہنشاہ معظم اور دنیا کی واحد سپر پاور کے سربراہ اوبامہ 70سالہ حریت پسند کمانڈر سراج الدین حقانی سے خائف ہیں اور طالبان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے کے بعد ہزیمت سے بچنے کیلئے پاکستان کو کمبوڈیا بنانے پر تلے ہوئے ہیں،اس صورتحال کا صاف مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں شکست نے امریکی فوجی، سیاسی اورخفیہ ایجنسیوں کی قیادت کو پاگل کردیاہے اور اُن کے پاس ایک ہی حربہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ اپنی خفیہ کارروائیاں پاکستان میں کریں،جس کا پس پردہ مقصدیہ ہے کہ پاکستان میں انتشار اور عدم استحکام پیدا ہو اور امریکہ اپنے اہداف باآسانی حاصل کرسکے، دوسرے یہ کہ امریکہ ایبٹ آباد طرز کی فوجی کارروائی کے ذریعے پاکستان کی جوہری صلاحیت کو تباہ کرکے بھارت کو علاقے کا چوہدری بنادے ،لیکن طالبان حریت پسندوں کی چھاپہ مار کاروائیوں نے امریکہ ہلا کر رکھدیاہے اور وہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کی فرضی داستان گھڑ کے پاکستان کو افغانستان میں نیٹو افواج والے کردار کی ادائیگی پر مجبور کر رہا ہے،بصورت دیگر پاکستانی علاقوں پر خود حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے، اَمر واقعہ یہ ہے کہ امریکی مفادات کی جنگ میں اُس کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے کرتے ہم پہلے ہی ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکے ہیں، ہماری ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، امن و امان تہہ و بالا ہو چکا ہے اور ملک کے کسی بھی حصے میں شہری زندگی محفوظ نہیں ہے، ہماری سیکورٹی فورسز کے ارکان اور تنصیبات دہشت گردوں اور خودکش حملہ آوروں کی ہی نہیں،پاکستان دشمن طاقتوں کے بھی نشانے پر ہیں،اس صورتحال میں غور طلب بات یہ ہے کہ امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار برقرار رکھ کر کیا ہم مزید ملک و قوم کے جانی اور مالی نقصان کے متحمل ہو سکتے ہیں؟اب جبکہ امریکی طرزعمل سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ ہماری حکومتی اور عسکری قیادتیں چاہے جتنے بھی امریکی ناز نخرے اٹھائیں،اُس کی چاپلوسی اور کاسہ لیسی کریں،لیکن کبھی بھی امریکہ نہ ہمارے کردار پر اعتبار کرے گا اور نہ ہی وہ ہماری کارکردگی سے مطمئن ہو گا، کیونکہ اِس خطے میں شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ کا بنیادی ایجنڈہ ہی پاکستان کو غیرمستحکم اور ایٹمی قوت سے محروم کرنا ہے ،یہی وجہ ہے کہ اُسے نہ ہمارے سسٹم سے کوئی غرض اور نہ ہی ہمارے نقصانات سے کوئی سروکار ہے، نہ ہی وہ ہماری ترقی و خوشحالی اور امن و سلامتی کیلئے فکرمند ہے، اُس کی اپنی کروسیڈی پالیسیاں اور ایجنڈہ ہے جس پر کاربند رہنا ہرامریکی انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے، اپنی اِن ہی پالیسیوں کے تابع رہ کر امریکہ کبھی ہمارے ساتھ دوستی کا دعویدار ہوتا ہے، تو کبھی ہمیں اپنا فرنٹ لائن اتحادی بناتا ہے، کبھی ہمیں براہ راست دھمکیاں دیتا ہے اور کبھی ہماری خود مختاری و سا لمیت پر خود حملہ آور ہونے سے بھی گریز نہیں کرتا،اِس کے باوجود بھی ہم اُسے اپنا دوست اور ہمدرد سمجھتے ہیں ، کیا یہ پرلے درجے کی بے وقوفی نہیں ہے۔؟ ہمارا ماننا ہے کہ زمینی حقائق اور بین الاقوامی اُمور سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص اِس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور امریکہ کے ساتھ براہ راست تصادم کا راستہ اختیار کرنا کسی بھی ملک کا پسندیدہ آپشن نہیں ہوسکتا ،خاص طور پر پاکستان کیلئے ،کیوں کہ ہمارا معاشی، سیاسی اور عسکری ا سٹرکچر گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ کے ساتھ منسلک ہے،مگر یہ بھی تاریخ کی ایک بہت بڑی سچائی ہے کہ قوموں کی زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جب پسندیدہ آپشن اختیارکرنے کا راستہ اُن کو بندگلی میں لے جایاہے اور وہ مجبور ہوکر ایسے آپشن تلاش کرتی ہیں جو پسندیدہ اگر نہ بھی ہو تو بھی قابل عمل اور زمینی حقائق سے مطابقت رکھتا ہو اور قومی مفادات کے تحفظ، بقاء اور استحکام کا ضامن ہو، آج وطن عزیز پاکستان کو ایک ایسے ہی موڑ کا سامنا ہے،امریکہ نے ہمیں ایک ایسی بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے، جہاں ہم نے اپنے وسیع ترقومی مفادات ،اپنی آزادی اور ملکی سا لمیت و استحکام کیلئے جرأت مندانہ فیصلے کرنے ہونگے ،کیا اب بھی ‘ ‘ہو رزم حق وباطل تو فولاد ہے مومن” والا لمحہ نہیں آیا، یہ درست ہے کہ ہم امریکہ سے تصادم نہیں چاہتے،لیکن امریکہ کے احکامات مان کر اجتماعی خودکشی کرنا بھی ہمیں منظور نہیں،ہمیں افغانیوں سے خودداری، عزت وناموس اور غیرت و حمیت کے ساتھ ایمان کی سر بلندی اور پختہ یقین کے ساتھ جہاد کرنے کا سبق سیکھنا چاہیے،آج ہمارے بہت سے امریکہ نواز دانشوروں کا خیال ہے کہ اگر امریکہ نے اپنا دست کرم ہمارے سر وںسے ہٹا لیا تو ہم زندہ نہیں رہ سکیں گے،لیکن وہ ہمیں امریکی طاقت سے ڈ رانے کی کوشش کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ سر اونچا کرکے چلنے اور اپنی اَنا اور خودی کا سودا نہ کرنے والے نان جویں کو ضرور ترستے ہیں لیکن بڑی ہی آبرومندانہ موت مرتے ہیں۔ تحریر : محمد احمد ترازی