یہ بات اِنسانی فطرت کا حصہ ہے کہ دنیا میں ہر زمانے میں بعض لوگ اچھابننے کی اتنی کوشش نہیں کرتے جتنی کوشش اچھانظر آنے کی کرتے ہیںجبکہ حقیقت یہ کہ ہے دنیاان ہی لوگوں کو ہمیشہ یادرکھتی ہے جو اپنے قو ل و فعل اخلاق اور کام میں اچھے رہے ہیں اور اِن کا ظاہر و باطن دونوں ہی ایک جیسا رہاہے اوریہی وجہ ہے کہ ازل سے ہی دنیااِن لوگوں کو اچھاگردانتی رہی ہے جوخود بھی اچھے تھے اور اِن کے کام بھی بنی ونوع اِنسان کے لئے اچھے رہے ہیںاور اِس کے ساتھ ساتھ دنیا نے ان لوگوں کو بھی ہمیشہ اچھوں کی فہرست میں شامل کئے رکھا جو اعلی اخلاقی اقدار کے مالک رہے ہیں یعنی یہ کہ صدیوں سے انسانیت اِس نکتے پر قائم ہے کہ اخلاق وہ قوت ہے جس سے بدترین دشمن بھی زیر ہو سکتا ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ اخلاق ہی ایک ایسی قوت ہے جس سے دنیاکے بڑے سے بڑے دشمن کو بھی پست کیاجاسکتاہے اِس موقع پر ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ بڑابدقسمت ہے وہ اِنسان جو اِس سے عاری ہے اورکتنابراہے وہ اِنسان جو اِس بات کی پرواہی نہ کرے کہ لوگ اِسے بداخلاق اور براکہتے ہیں۔ایسااِنسان جو اِن تمام خوبیوں سے عاری ہونے کے باوجود بھی اگر خوش قسمتی اور کسی حادثاتی حوالے سے کسی مملکت کا سربراہ ہوجائے اور یہ اپنی رعایاکے لئے کچھ نہ کرکے بھی اِس خوش فہمی میں مبتلاہوکہ اِس کے کارناموں سے اِس کے عوام کو ریلیف ملا ہے تو پھر ایسے شخص کے بارے میں اِس کی رعایا کیاخیال کرے گی ….؟؟یہی کہ برے آدمی سے بھلائی کی امیدرکھنااتنی ہی غلط بات ہے جتنی کہ کسی اچھے آدمی سے برائی کی توقع کرنا اور یہی وجہ ہے کہ پاک و امریکا کے موجودہ صدور سے متعلق دونوں ممالک کے عوام یہ تہیہ کرچکے ہیں کہ اِن دونوں نے اپنے دورِ صدارت میں اپنے اپنے قول و فعل سے اپنے ملکوں کے عوام کو بہت زیادہ مایوس کیاہے اوریہ کسی بھی لحاظ سے اپنے عوام کے معیار پر اس طرح پورے نہیں اترسکے ہیں جس کا تصورکرکے اوبامااور زرداری کے ملکوں کے عوام نے اِنہیں عہدے صدارت کے لئے چنا تھا۔ یہاں ہم اپنے صدر زرداری سے متعلق کوئی اور بات نہیں کریں گے کیوں کہ اِن سے متعلق پہلے ہی ہمارے یہاں بہت کچھ کہاجاچکاہے اور اِن سطور کے رقم کرنے تک اِن کی ذات اور عہدے صدارت کے بارے میں بہت کچھ لکھا، پڑھااور سناجارہاہے مگرایسے میں ہم ایک بات موجودہ امریکی صدر مسٹر اوباما سے متعلق ضرورکریں گے کہ اِن کے بارے میں واشنگٹن سے ایک خبر یہ آئی ہے کہ رواں ماہ دستمبر کی 5تا7تاریخوں کے دوران ایک امریکی ٹی وی سی ایس کے نے اپنا ایک تازہ ترین سروے کیاہے جس کے مطابق 54فیصدامریکیوں کا خام خیال یہ ہے کہ امریکی تاریخ کے موجودہ پہلے سیاہ فام صدر مسٹر بارک اوباما ملک کو درپیش معاشی بحران سمیت عالمی سطح پر امریکاکی دہشت گردانہ روارکھی گئیں خارجہ پالیسیوں کے باعث کسی بھی طورپر دوسری مدت کے لئے صدر بننے کے اہل نہیں ہیں اور اِسی کے ساتھ ہی اِس امریکی ٹی وی نے یہ بات بھی اپنے تازہ ترین سروے میں پورے وثوق کے ساتھ کہی ہے کہ موجودہ امریکی صدر مسٹر اوباماجنہوں نے اپنے پیش رو صدر بش کی طرح خود پر دنیاکو فتح کرنے والا جنگی جنوں سوار کررکھاہے یہ بھی عراق کے بعد اب افغانستان میں بھی اربوںاور کھربوں امریکی ڈالر بھونک چکے ہیں مگر اِس کے برعکس گزشتہ دس سالوں میں امریکا کو وہ کچھ حاصل نہیں ہوسکاہے جس کامرانی اور کامیابی کا خواب اور اِس کی تعبیر لے کر امریکا نیٹواور ایساف کے ساتھ سنگلاخ چٹانوں اور اونچے اونچے پہاڑوں والی سرزمینِ افغانستان میں گھوساتھاآگے چلاکر امریکی ٹی وی یہ بھی دعوی کرتاہے کہ افغانستان میں کھلنے والے نئے جنگی محاذ اور اب افغانستان میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ ناکامیوں اور مایوسیوں کا منہ دیکھتے امریکا نے اپنی کامیابیوں کا سوراخ پاکستان میں ڈھونڈنے کے لئے سپاکستان میں بھی تیسرے جنگی محاذ کی تیاریاںزورو شور سے شروع کردی ہیں اِس موقع پر امریکی ٹی وی کہتاہے کہ ایک کے بعد ایک جنگی محاذمیں امریکیوں کو نامامیوں کا منہ دیکھناپڑاہے اور دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی اِس بڑی جنگ میں (جسے سابق امریکی صدر بش ایک موقع پر صلیبی جنگ کا نام دے چکے ہیں) الٹااب تک امریکی معیشت اور اقتصادیات کا بیڑاغرق ہی ہواہے اور آج امریکا اِن جنگوں میں پھنسے رہنے کی وجہ سے شدیدمالی مشکلات سے دوچار ہونے کے باعث دیوالیہ کے قریب تر پہنچ چکا ہے۔ مگر موجودہ امریکی صدر اوباما ہیں کہ اِن تمام صورت حال سے دوچار ہونے کے باوجود بھی نہ تو اِن کے سر سے جنگی جنون اور دنیا (بالخصوص مسلم امہ) کو فتح کرنے کا بھوت اترسکاہے اور نہ ہی کوئی امریکی صدر کو سمجھاتا ہے کہ وہ اپنے جنگی جنون کی وجہ سے امریکا اوراِس کے عوام اور معیشت کا تو ستیاناس نہ کریں الٹا یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ اِن کے اردگرد منڈلاتے اِن کے تھنک ٹینک کے وہ کارندے جن میں سے اکثر کا جھکاو اسرائیل کی طرف ہے اور یہ گریٹ اسرائیل کے منصوبے پر کاربندہیں یہ لوگ امریکی انتظامیہ کو جارحانہ پالیسیوں بنانے پر مسلسل مجبور کئے ہوئے ہیں اور امریکی انتظامیہ اِن کے دباو میں ایسی پالیسیاں مرتب کررہی ہے جس سے اب یہ محسوس ہونے لگاہے کہ یہ اسرائیل جیسے کسی امریکا دوست مگر پسِ پردہ امریکی دشمن ملک کے اشارے پر اپنی آنکھیں بندکرکے امریکی انتظامیہ اور امریکی افواج کے سربراہان اِن مشوروں پر من وعن عمل کرنا خود پر لازم کر لیتے ہیں۔ اِس موقع پر ہم برملا یہ کہیں گے کے یہ تھنک ٹینک والے اسرائیلی یہودی ہی تو ہیں جنہوں نے نائن الیون کے واقعے میں خود اہم کردار اداکیا اور اِس کا ساراملبہ مسلم امہ کرسر تھونپ کر امریکا کو مسلمانوں کے خلاف اکساکر اِسے کئی جنگی محاذوں میں دھکیل دیا اور اب یہی اسرائیلی یہودی ہیں جو اِس کے تھنک ٹینک میں بیٹھ کر امریکی انتظامیہ اور امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فارم (کہنے کو مسلم )صدر مسٹربارک حسین اوباما کوامریکی تاریخ کا ایک ناکام ترین صدر ثابت کرنے کے لئے اِسے اپنے الٹے سیدھے مشوروں سے افغانستان کے بعد اب پاکستان میں بھی نیاجنگی محاذ کھولنے کے لئے جارحانہ پالیسیاں مرتب کرکے دے رہے ہیں جس کی وجہ سے موجودہ امریکی انتظامیہ اور امریکی افواج میں پاکستان سے متعلق جنگی جنون پیداہوناشروع ہوگیاہے جس کی ایک تازہ ترین مثال 26نومبر کو نیٹو افواج کی جانب سے بالااشتعال پاکستانی سرحد میں قائم پاک افواج کی دو چوکیوں کو ارادی طور پر نشانہ بنانابھی شامل ہے۔اب اِس صورتِ حال میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی خوش فہمی میں مبتلا امریکی صدر کواگر امریکی عوام دوسری مدت کے لئے صدربننے کے لئے اہل نہیں سمجھتی ہے تو پھر یہ ٹھیک ہے اور امریکی صدر اوباماکو یہ بات تسلیم کرلیناچاہئے کہ امریکی عوام اِن سے اور اِن کی پالیسیوںسے سخت خائف ہے اور یہی کچھ ہم اپنے صدر زرداری کے لئے بھی کہناچاہیں گے کہ یہ بھی کسی خوش فہمی میںمبتلاہوکردوسری مدت کے لئے عہدے صدارت کے حصول کے لئے اپنی بیماری کی حالات میں پریشان مت ہوں۔ تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم