ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں بعض بااثر حلقے صدر اوباما کے افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے پروگرام سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے اور وہ حالات کو اس نہج پر لے جانے پر تلے ہوئے ہیں جس سے فوجوں کی واپسی کا اصل پروگرام متاثر ہو۔ پاکستانی علاقے میں سلالہ چیک پوسٹ پر 26نومبر2011 کے فضائی حملے اور اس واقعے پر واشنگٹن کی طرف سے معافی مانگنے سے گریز سمیت ناخوشگوار حقائق کی ایک طویل فہرست ہے جس کا پاک امریکی تعلقات، خطے کے امن و استحکام اور سپر پاور کی عالمی ذمہ داریوں کے حوالے سے سنجیدگی سے تجزیہ کیا جانا خود امریکہ کے مفاد میں ہے۔
ایک ناخوشگوار واقعہ پر اسلام آباد کی طرف سے معافی مانگنے کے مطالبے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اسلام آباد کو پاکستان اور امریکہ کے طویل دوستانہ تعلقات کے حوالے سے ایسی کارروائی کی امید نہیں تھی اور معذرت وہ عمل ہے جس کے ذریعے اس واقعے کے ناگوار تاثر کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایسے مطالبے دشمنوں سے نہیں کئے جاتے، صرف دوستوں سے کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح جب ایک دوست دوسرے دوست سے معافی مانگتا ہے تو اگرچہ اس کے ناگوار اقدام سے پہنچنے والے نقصان کی تلافی نہیں ہوتی مگر یہ تالیف قلب کی ایسی صورت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ کسی دشمنی کی بنا پر نہیں بلکہ غلطی کی بنا پر ہوا اور دونوں فریقوں کی دوستی قائم ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے اسلام آباد واشنگٹن تعلقات سے متعلق بعض امور کو تحریری صورت اسی لئے دی تھی کہ مستقبل میں کسی قسم کی غلط فہمی کے امکان کو کم کیا جاسکے۔
جمہوریت کے علمبردار ملک کی حیثیت سے امریکہ سے یہ توقع بے محل نہیں تھی کہ وہ ایک آزاد جمہوری ملک کی منتخب پارلیمنٹ کی تجاویز پر توجہ دے گا۔ مگر واشنگٹن سے جس انداز میں بلوچستان کے بعض انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کی گئی، اہم امریکی عہدیداروں نے بھارت جاکر پاکستان کے خلاف جس نوع کے بیانات دیئے، افغانستان سے پاکستان میں مسلح لشکروں نے جس جارحانہ انداز میں دراندازی کی اور پاکستان میں موجود امریکی سفارت کاروں کی طرف سے سفارتی آداب اور پاکستانی قوانین کو نظرانداز کرنے کی جو روش اختیار کی گئی وہ ایسی نہیں ہے جس کی پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت اور پاکستان کی قربانیوں کے حوالے سے امید کی جاسکتی۔
drone attack
پاکستان نے امریکہ سے دوستی کے ناتے1979 میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد اور پھر نائن الیون کے واقعے کے بعد اسٹریٹیجک پارٹنر کی حیثیت سے اپنی بساط سے بڑھ کر جو کردار ادا کیا، اس کی بنا پر یہ توقع بے محل نہیں تھی کہ واشنگٹن پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کی اپریل 2012 میں متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد کا احترام کرے گا اور جاسوس طیاروں کے ذریعے حملوں کا سلسلہ رک جائے گا جن سے بہت سے بے گناہوں کی ہلاکت کے ردعمل میں دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم کی عوام میں حمایت کم ہورہی ہے۔ مگر اس قرارداد کی منظوری کے بعد تقریبا ایک درجن ڈرون حملے کئے جاچکے ہیں۔
پیر 4جون2012 کو اس معاملے میں سفارتی آداب اور پاکستانی و بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کا عنصر بھی شامل ہوگیا۔ امریکی سفارتی اہلکار دو گاڑیوں میں ناجائز اسلحے سمیت گھومتے ہوئے پائے گئے۔ مالاکنڈ سے پشاور آنے والی ان گاڑیوں سے ٹول پلازہ کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 6 آٹومیٹک رائفلز، 4 پستول، درجنوں میگزین اور گولیاں برآمد کی تھیں۔
گاڑیوں میں سوار تین امریکی اہلکاروں کو، جن کے پاس پشاور میں داخلے کا این او سی بھی نہیں تھا، سفارتی استثنی کی بنا پر رہا کردیا گیا مگر یہ تشویش اپنی جگہ موجود رہی کہ امریکہ جو سپرپاور ہونے کے علاوہ قیام پاکستان کے وقت سے اسلام آباد کے ساتھ دوستانہ معاہدوں کا فریق بھی ہے، دوسرے ملکوں سے جن سفارتی آداب کے احترام کی توقع رکھتا ہے، ان کا احترام اپنے اہلکاروں سے کرانے میں کیوں کامیاب نہیں رہا۔ اسی بنا پر منگل5جون 2012 کو امریکی سفارت خانے کے ناظم الامور رچرڈ ہوگلینڈ کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملوں، امریکی سفارت کاروں کی پشاور میں بلا اجازت نقل و حرکت اور غیرقانونی اسلحہ رکھنے پر شدید احتجاج کیا گیا۔
امریکی ناظم الامور کو امور خارجہ کے خصوصی سیکرٹری کی طرف سے دو مراسلے دیئے گئے جن میں سے ایک میں ڈرون حملوں اور دوسرے میں امریکی سفارتی اہلکاروں کی گاڑی سے پشاور میں پولیس کی تلاشی کے دوران غیرقانونی اسلحہ ملنے پر احتجاج کیا گیا۔ جیسا کہ وزارت خارجہ کی طرف سے واضح کیا گیا ، ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین اور پاکستان کی خودمختاری کے منافی ہیں جبکہ مہمان سفارتی اہلکاروں کا غیرقانونی اسلحہ لیکر گھومنا کسی بھی میزبان ملک کے لئے پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
nato supply
امریکہ کو بلاشبہ نیٹو سپلائی کے زمینی راستے کی بندش سے بعض مشکلات کا سامنا ہے لیکن اگر پہلے ہی روز اس واقعے پر معافی مانگ لی جاتی تو ان مشکلات سے بچا جاسکتا تھا اور اب بھی دوستانہ معافی تلافی کا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات مدنظر رکھنے کی ہے کہ اسلام آباد نے اپنے فضائی راستے سے نیٹو سامان کی رسد پر پابندی نہیں لگائی تھی جس کا مفہوم واضح تھا کہ وہ اپنے دوستوں کو مشکلات میں مبتلا کرنے کی خواہش نہیں رکھتا۔
واشنگٹن اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم کی کامیابی، افغانستان سے غیرملکی فوجوں کی باعزت واپسی اور ان فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔ 1979 سے افغانستان جنگ اور عدم استحکام کی جس کیفیت سے دوچار ہے اس سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ یہ عدم استحکام مستقبل میں بھی جاری رہے۔ اس لئے امریکی حلقے جب بھارت کو افغانستان کی تعمیروترقی میں مدد دینے والے خیرخواہ ملک کی بجائے علاقائی طاقت کے طور پر پولیس مین کا کردار دینے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں تو بات صرف پاکستان کو زچ کرنے تک محدود نہیں رہتی بلکہ افغانستان کے مستقبل کے استحکام کے حوالے سے بھی خدشات جنم لیتے ہیں کیونکہ افغانوں کی تاریخ یہی ہے کہ وہ بیرونی تسلط کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کرتے۔
واشنگٹن کے حلقوں کی طرف سے یہ اشارہ دیا جانا کہ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا اپنے دو روزہ دورہ بھارت میں افغانستان میں مزید فعال کردار ادا کرنے کے لئے نئی دہلی کی حوصلہ افزائی کریں گے، خود بھارت کے لئے بھی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ واشنگٹن کو خطے کے جغرافیائی حالات اور افغانوں کی آزاد فطرت کا ادراک کرتے ہوئے ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں جن میں افغانستان کے معاملات خود افغان عوام چلائیں اور وہاں کوئی بیرونی مداخلت نہ ہو۔ پڑوسی ملکوں سے تجارتی ، قبائلی اور رواجی تعلقات ایسی چیزیں ہیں جو بیرونی ذرائع سے پیدا کی جاسکتی ہیں، نہ ختم کی جاسکتی ہیں۔ لہذا واشنگٹن کو افغانستان سے جاتے ہوئے ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنا چاہئے جس سے مستقبل میں بھی افغانستان سمیت پورا خطہ عدم استحکام سے دوچار رہے۔ یہ بات خود امریکہ اور عالمی برادری کے مفاد میں بھی نہیں ہوگی۔
pakistan Missile
جہاں تک ڈرون حملوں اور سفارت کاروں کی سرگرمیوں کا تعلق ہے امریکی ناظم الامور نے وزارت خارجہ کو اپنے حکام تک پاکستان کے تحفظات پہنچانے کی یقین ہانی کرائی ہے اور توقع کی جانی چاہئے کہ امریکی انتظامیہ ان امور پر سنجیدگی سے توجہ دے گی۔ حتف 7کروز میزائل کا کامیاب تجربہ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کئے جانے والے ایک اعلامئے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے ریڈار پر نظرنہ آنے والے حتف 7بابر کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ مقامی ٹیکنالوجی اور وطن عزیز کے سائنسدانوں اور انجینئروں کی فنی مہارت سے تیار کیا جانے والا یہ میزائل جوہری اور روایتی دونوں قسم کے ہتھیار لے جانے اور 700کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔میزائل اور اس نوع کی جدید ترین حربی ٹیکنالوجی سے لیس تمام ہتھیاروں کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد آزمائش اور تجربے کی بھٹی سے گزارنا ایک لازمی ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان کو چونکہ اپنے آپ کو بیک وقت مغربی اور مشرقی دونوں جانب سے محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں بڑی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور ان کے وسیع تر عالمی مفادات سے پیدا ہونے والے خطرات کا بھی سامنا ہے اس لئے قرآن حکیم کی ہدایت کے مطابق اپنے گھوڑوں کو ہر قسم کے حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے تیار رکھنا ہماری ناگزیر ضرورت ہے کیونکہ بیرونی جارحیت کو روکنے کے لئے قابل بھروسہ دفاعی طاقت ہی امن کی سب سے بڑی ضمانت ہوا کرتی ہے اور جر م ضعیفی کی سزا مرگ ِ مفاجات کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔