ویسے تو اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بھی بے کار اور بد صورت نہیں بنائی۔قدرت کے حسین کارخانے میں ہر شے اپنا مقام رکھتی ہے اور کسی بھی مخلوق کی اہمیت کو کم کرنا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔قدرت کے اس خوبصورت کارخانے میں پرندے اللہ تعالیٰ کی بہت ہی خوبصورت اور معصوم مخلوق ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی یہ خوبصورت تخلیق دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔پرندے جنگلوں میں رہیں یا شہروں میں ان کی خوبصورتی انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
پرندوں کے رہنے کا اصل مقام تو جنگل ہی ہے لیکن آج بہت سے پرندے شہروں میں بسیرا کرچکے ہیں جن میں جنگلی کبوتر سرفہرست ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جو ان کو جنگل چھوڑ کر شہروں میں رہنے پر مجبور کرتیں ہیں ،ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیاآج انسانوں کے لیے شہرچھوڑکر جنگلوں میں رہنا ممکن ہے؟اگر جواب نہیں ہے تو پھر پرندوں نے جنگل چھوڑ کرشہروں کا رخ کیوں کیا؟ جنگلی پرندوں کا جنگل چھوڑ کرشہروں میں ڈیرے ڈالنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ شہری لوگ بھی مہمان نواز ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ شہروں میں بسنے والوں نے کبھی اپنے ہمسائیوں کا حال نہیں پوچھا مگر آپ جانتے ہیں کہ شہر میں جگہ جگہ جنگلی پرندوں کے کھانے اور پینے کا اہتمام کیا جاتاہے ۔شہر میں کچھ لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پرپرندوں کے لیے پانی اور دانے کا اہتمام کرتے ہیں اور باقاعدگی سے شہر کے چوراہوں میں رکھے ہوئے برتنوں میں گندم،چاول،باجرہ اور مختلف قسم کے اناج ڈالنے جاتے ہیں۔
شہر کے ان چوراہوں میں نہ تو کوئی ان پرندوں کاشکار کرتا ہے اور نہ ہی پکڑ کرقید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ حکومت نے ان پرندوں کے شکار پرپابندی لگارکھی ہے لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ اتنی زیادہ مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ ان پرندوں پر ظلم بھی وہی لوگ کرتے ہیں جوان کے لیے کھانے پینے کا اہتمام بڑے شوق سے کرتے ہیں۔شہروں کے اندر جنگلی پرندوں پر ظلم کرنے والے لوگ فطری ظالم نہیں ہیں لیکن بے خبری میں ان سے اکثر ظلم ہوتا رہتا ہے ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب وہ لوگ ظالم نہیں تو پھر ظلم کیوں کرتے ہیں اور اگر ظلم کرتے ہیں تو پھر وہ لوگ ظالم کیوں نہیں ہیں ؟بات کچھ یوں ہے کہ جب پرندوں کوپنجروں میں قید دیکھتے ہیں توان کی قیمت ادا کرکے ان کو قید سے رہائی دلاتے وقت لوگ اپنی طرف سے ان پرندوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں لیکن میری نظر میں وہ لوگ جوایسا کرتے ہیں دراصل انجانے میں ظلم کررہے ہوتے ہیں کیونکہ جو لوگ پرندوں کو قید کرتے ہیں وہ اس بات سے باخوبی واقف ہیں کے لوگ پرندوں کی قیمت ادا کریں گے اگر ہم لوگ پرندوں کو خریدنا بند کردیں تو کوئی اُن کو پکڑ کرقید نہیں کرے گا۔اس طرح پرندوں کو قید کرنے والا اور خرید کر آزاد کروانے والا دونوں ہی ظالم بن جاتے ہیں ۔پرندوں کورہائی دلانے والوں کومیں معصوم ظالم کہتا ہوں ۔لیکن ظالموں کی اور نسل بھی انہی شہروں میں پائی جاتی ہے۔ جس نے ان جنگلی پرندوں کو اپنا ماحول چھوڑ کرشہروں میں بسنے پرمجبور کیا۔اس ظالم نسل میں وہ لوگ شامل ہیں جو شہروں سے آئے پرندوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں لیکن جنگلوں میں بندوقیں لیے شکار کاشوق پورا کرتے ہیں ان لوگوں کو شکار کھانے میں کم اور مارنے میں زیادہ مزہ آتا ہے۔
شائد یہی وجہ ہے جس نے پرندوں کو جنگل چھوڑ کرشہروں میں بسیرا کرنے پرمجبور کردیاہے۔کیا اچھا ہو اگر ہم لوگ ان جنگلی پرندوں کی خریدو فروخت کے ساتھ ساتھ ان کا شکار کرنا بھی ترک کردیں ۔جب میں انسان کو جنگل میں پرندوں کاشکار کرتے اور شہروں میں مہمان نوازی کرتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ کیسی مہمان نوازی ہے ؟جوکسی کو اس کے گھر سے بے دخل کرنے کے بعد کی جاتی ہے؟یہ کیسی محبت ہے جو محبوب کو گولی کی نوک پہ رکھتی ہے؟کیا اچھا ہو اگر ہم جنگل میں خولی بند کرکے معصوم پرندوں کو ان کے قدرتی ماحول میں جینے دیں ۔کیا ہی اچھا ہو اگر ہم جنگلوں کو برباد کرنے کی بجائے آباد کریں۔
Birds
درخت بلاوجہ نہ کاٹیں اور اگر بوقت ضرورت ایسا کرنا پڑے تو کٹنے والے درخت کی جگہ ایک نیا درخت لگا کر پرندوں کو آشیانے بنانے میں مدد کریں اور پھر یہ کیسی انسانیت ہے کہ انسان تو کمزوری اوربے بسی کی حالت میں فٹ پاتھ پر پڑے رہتے ہیں لیکن ہم ان کی طرف مڑ کرب ھی نہیں دیکھتے اور پرندوں کو زبردستی مہمان بنا کر ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں ؟اگر ہم پرندوں کی خدمت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے کرتے ہیں تو ہمیں اس پہلو پر بھی غوروفکر کرلینا چاہیے کہ کہیں یہ کاوش رائیگاں تونہیں چلی جائے گی۔