اپنے دفتر میں بیٹھا اخبار میں موجود سیاستدانوں کی شطرنجی چالوں کے انوکھے کرتب کی تفصیلات پڑھ رہا تھا کہ بجلی چلی گئی اسی اثناء میں خیال آیا کہ یونیورسٹی کی فیس جمع کروانی ہے تو فوری طور پر فیس جیب میں ڈالی ،موٹر سائیکل سٹارٹ کیا اور بنک کی طرف روانہ ہو گیابنک میں داخل ہوا تو منیجر سے کہا کہ فیس جمع کروانی ہے جس پر منیجر نے مودبانہ عرض کیا کہ لائٹ نہیں ہے ۔مزید جاننے پر علم ہوا کہ صبح سے لے کر 12:30تک صرف آدھے گھنٹے کے لئے بجلی آئی تھی جس میں یوپی ایس(یو پی ایس)بھی صحیح طرح سے چارج نہیں ہو سکے اور اب یو پی ایس بھی چراغ گل ہو چکے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیے کہ جس ملک میں بجلی کی ایسی صورت حال ہو کہ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے بجلی غائب رہتی ہو بنک ایسے ادارے بھی رقم جمع کرنے سے معذرت خواہ ہو ں اس ملک میں غیر ملکی سرمایا کاری کیا خاک چھاننے آے گی۔
جب غیر ملکی سرمایا کاری ہی نہیں آئے گی تو روزگار کے مواقع کیسے میسر آئیں گے ؟روزگار کے مواقع میسر نہیں آئیں گے تو لوگ بھوک اور ننگ میں چوری ،ڈاکہ زنی ،راہ زنی اور قتل و غارت گری پر اتر آئیں گے جس سے ملک کا امن و امان متاثر ہو گا اور لاقانونیت عام ہو جائیگی اور اس وقت ملک کی صورت حال اس سے کہیں زیاد بھیانک ہے۔ ایسے میں غیر ملکی سرمایا کار خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے موجودہ سرمایا کے ساتھ کسی دوسرے ملک کی راہ لیں گے ۔پھر جناب وزیراعظم گیلانی غیر ملکیوں کی لاکھ منت سماجت کریں کہ ہمارے ملک سرمایا کاری کرو تو تب بھی وہ سرمایا کاری کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو سکیں گے ۔ کاروبار کرنے والے سر مایا کاربھیک کی صورت میں تو رقم دے سکتے ہیں مگر سرمایاکاری نہیں کر سکیں گے چونکہ یہاں ضرورت کے وقت بجلی اور گیس ہی موجود نہیں ہوتی جو کسی بھی شعبے میں سرمایاکاری کرنے کے لئے بنیادی ضروریات کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
شاید وزیر اعظم کو یہ معلوم نہیں کہ غیر ملکی سرمایاکاروں کو اپنے مال سے زیادہ جان عزیز ہے اوروہ ہم جیسے بیکاریوں کو امداد دے سکتے ہیں مگر سرمایا کاری نہیں کر سکتے جبکہ ہمارے اللے تللوں کو اپنی جان سے زیادہ مال کی فکر دامن گیر ہوتی ہے جس کی مثا ل ہمارے ملک میں موجود حکومتی اہلکاروں کی بے انتہا کرپشن ہے ۔اس کے لئے وہ جیل جانے کو بھی تیار بیٹھے ہیں۔ جبکہ سرمایا کاری کے اعتبار سے جناب گیلانی کا دور حکومت 2008سے پہلے کی سرمایاکاری کی نسبت انتہائی کم سرمایالانے میں سر فہرست رہاہے گو کہ گزشتہ چار سالہ دور حکومت معاشی و اقتصادی اعتبار سے انتہائی ناکام دور حکومت کے طور پر سامنے آیا ہے جو موجودہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کا ناکامیوں اور نااہلیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ان ناکام اور نا اہل لوگو ں کو یہاں تک پہنچانے کا سہرا بھی ہم جیسے بے وقوف لوگوں کے سر ہے۔
لوڈشیدنگ سے تنگ عوام احتجاج کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کرکے قیمتی املاک کا نقصان کرتے ہیں بجلی دفاتر میں ہنگامہ آرائی کرتے ہیں تو پھر کہیں جا کر حکومتی عہدے دار بیدار ہو تے ہیں جبکہ اس سے پہلے تک وہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔مسئلہ عوامی سطح کا ہو تا ہے جس کو حل کرنے کے لئے حکمتی علم و دانش کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہمارے سیاسی بازی گر ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے ہوئے اپنی سیاسی ساکھ کو مضبوط کرنے کے درپے رہتے ہیں جیسا کہ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن فرماتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کے مارے عوام سڑکوں پر ہیں اور سزا یافتہ وزیر اعظم یورپ میں عیش کر رہے ہیں، اسی طرح چوہدری شجاعت فرماتے ہیں کہ حکومت نے لوڈشیڈنگ پر ہماری تجویز نہ مانی تو مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گے ،یعنی حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے،اسی طرح مولانا فضل والرحمن ایک نئی پیشن گئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ توانائی کا بحران حکومت اور سیاست کو بھسم دے گا ۔ان سے کوئی پوچھے کہ پچھلے چار سالوں میں ایسا کیوں نہیں ہوا۔
سونامی والے بھائی عمران خان کو کہنا ہے کہ مرکز اور پنجاب میںبرسر اقتدار جماعتیں لوڈشیدنگ کی ذمہ دار ہیں ،اسی طرح شہباز شریف کا کہنا ہے کہ صرف پنجاب میں لوڈشیڈنگ صدر زرداری کی پنجاب کے ساتھ ناانصافی ہے اور یو ں بلا آخر اتنے شور میں کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا جس پرجناب صدر نے توانائی بحران کے سلسلے میں ایک اجلاس منعقد کروا دیا جس میں توانائی بحران سے نکلنے کے لئے ضروری اقدامات پر فوری عمل کرنے پر غور کیا گیا۔ اس اجلاس کے چند دن تک تو عوام کو کچھ ریلیف مل جائے گا مگر چند دن کے بعد پھر کتے کی دم ٹیڑی کی ٹیڑی ہی نکلے گی۔
گزشتہ چار سالوں میں ہمیں ایسے ہی دل کو بھا لینے والے بیانا ت اور اجلاس ،سننے اور دیکھنے کو ملے جس میں سیاسی شبہ بازوں کی سیاست چمکی ،اجلاس ہوئے ،احتجاج ہو ئے مگر نتیجہ صرف اور صرف لوڈشیڈنگ کی صورت میں نکلا،بالاآخر وفاقی وزیر پانی اور بجلی گرمی کی اس شدت میں ایک ٹھنڈک کا احساس دلا رہے ہیں کہ ملک میں کہیں بھی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اپنے مسکن کا حال اس سے ملتا جلتا ہو گا جو یہ بیان کر رہے ہیں مگر ملک میں لوڈشیدنگ کی صورت حال ان کے اس بیان کے بالکل برعکس ہے۔
نتیجہ مختصر یہ کہ اس ناکام اور نا اہل حکومت نے پچھلے چار سالوں میں اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور عوامی فلاح وبہبود کے برخلاف ہر وہ قدم اٹھایا ہے جس سے عوامی مشکلات میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے ۔بجلی آئے روز مہنگی ہونے کے باوجود ملتی نہیں ہے صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور سرمایا کار بیرون ممالک کی راہ ناپ رہے ہیں سرمایا کاری بالکل دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے اور حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اندرونی سرمایا کاری بھی ختم ہو کر رہ گئی ہے جس کی ایک اہم وجہ بجلی کا نہ ہونا ہے ایسے میں اہل اقتدار کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور نااہل لوگوں کو نکال باہر کریں جہاں ضروری ہو وہاں ذمہ دار اور پیشہ ور لوگو ں کو تعینات کریں نہ کہ کرپٹ اور متنازعہ شخصیات کو ، تاکہ ملک کے معاشی و اقتصادی حالات میں بہتری لائی جا سکے۔تحریر: محمد قمر اقبال کمال