چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان کے حالیہ بیانات نے قوم کو کنفیوز میں ڈال دیا ہے اور حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ پی پی کی حکومت آرمی چیف کے اس بیان کی آڑ میں چیف جسٹس سے اپنے بدلے چکانا چاہتی ہے اداروں کا ٹکراؤ ملکی یکجہتی کو پارہ پارہ کر دے گا پاکستان میں کوئی بھی مقدس گائے نہیں سب کا احتساب ہونا چاہئے ،عدلیہ کو با اختیار بنانے میں عوام کا خون شامل ہے اگر اعلیٰ عدلیہ پر شب خون مارنے کی کوشش کی گئی تو اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے ہر ادارہ اپنے حدود میں رہ کر کام کرے ایک مخصوص لابی نے موجودہ تناظر میں اپنا کھیل ،کھیل کر عدلیہ اور فوج کو آمنے سامنے کردیا ہے ریاست کا ہر ستون اپنے حدود میں رہ کر کام کرے میڈیا پاکستان کی آواز بنے امریکہ اور ہندوستان کی بولی نہ بولے پاک فوج ہماری سرحدوں کی محافظ ہے اور یہ سرحدوں پر ہی اچھی لگتی ہے اس کا احترام سب پر لازم ہے اور اس حقیقت کو ہمیں تسلیم کرنا پڑیگا کہ پاکستان میں سپریم کورٹ ہی اتھارٹی ہے۔
ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ جو خطرناک اور تباہ کن بھی ہے وہ یہ کہ دہشت گردی کی نئی لہر نے قوم کو اضطراب میں مبتلا کردیاہے ، آئے روز معصوم افراد کو تہہ تیغ کیا جارہاہے مگر ریاستی ادارے ہاتھ پے ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، عوام کو تحفظ اور انصاف فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک میںججز، وکلائ، اعلیٰ عہدیداروں، طالب علموں، علمائے کرام اور بے یارو مدد گار مسافروں سمیت کسی کی بھی جان محفوظ نہیں، جب تک بیان بازی سے بڑھ کر ٹھوس بنیادوں پر دہشت گردوں کیخلاف ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا جاتا پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا ملک بھر جاری دہشت گردی کی نئی لہر خصوصاً کوئٹہ، کراچی ،حیدرآباداورپشاور میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے ایسے لگتا ہے جیسے پاک سرزمین کو دہشتگردوں کے حوالے کردیاگیا ہے۔
عملاً ملک میں انہی کا راج ہے اس وقت پورا ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہاہے کوئی شخص بھی سفر کرتے ہوئے، کاروبار، بازار یا گھر میں محفوظ نہیں ہے یہاں تک کہ انصاف فراہم کرنے والوں کو بھی سرعام دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتاہے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی جب تک مقتدر حلقوں کی طرف سے مذمتی بیانوں کے علاوہ ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے جاتے اس وقت تک قوم کو اس اضطرابی کیفیت سے نہیں نکالا جاسکتا اس کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کو ان کے سرپرستوں سمیت بے نقاب کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ ملک میں پائیدا ر امن قائم ہوسکے اور دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی میں پسی عوام کو کچھ سکھ کا سانس نصیب ہوسکے جبکہ ایک اہم خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان نے امریکہ کے بعد 49 نیٹو ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے راستے افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے وزارت دفاع نے معاہدے کا مسودہ نوک پلک سنوارنے کے لئے وزارت قانون و انصاف کو بھجوا دیا ہے۔ اس معاہدے کی تمام شرائط بھی وہی ہونگی جو امریکہ کے ساتھ تھیں اور اس ماہ کے آخر میں 49 نیٹو ممالک کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط ہوجائینگے جس کے تحت امریکہ کیساتھ ساتھ نیٹو ممالک کو بھی پاکستانی راستوں سے سپلائی کی اجازت ہوگی اور 2013 میں وہ اپنا سامان اور میشنری نکالنے کے لئے بھی پاکستانی روٹس استعمال کریں گے اس سلسلہ میںنیٹو ممالک کے ساتھ جو معاہد ہ کیا جائے گا وہ بھی تین سال کے لئے ہی ہوگا اور نیٹو ممالک افغانستان سپلائی کے لئے ہتھیار نہیں لے جاسکیں گے۔ نیٹو سپلائی کے تحت افغانستان جانے والے کنٹینرز اور ٹرکوں کی سیکیورٹی کی عمومی ذمہ داری پاکستان کی ہوگی۔ سپلائی کی پاک افغان سرحد کی دونوں جانب نقل وحرکت کے لئے جنوبی اور شمالی روٹس متعین کئے گئے ہیں جو کہ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم سے چمن بارڈر اور کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم سے طورخم تک ہونگے۔
Iftikhar Chaudhry
پاکستان کی وزارت دفاع سپلائی کی نقل و حرکت کے لئے پاکستان کے قوانین اور ضابطہ کار کے مطابق اتھارائزیشن کرے گی یعنی سپلائی جب پاکستانی حدود سے گزرے گی تو اس پر پاکستانی قوانین لاگو ہونگے اور مجاز اتھارٹی حکومت پاکستان ہوگی۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ریل کے ذریعے بھی سپلائی کی ترسیل ہوگی۔ نیٹو سپلائی پر کسی قسم کی کوئی ڈیوٹی یا ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔ امریکہ کی طرح نیٹو ممالک بھی کسی ایک سفارت خانے میں نیٹو سپلائی سے متعلق رابطہ مراکز قائم کرینگے جبکہ وزارت دفاع میں بھی رابطہ مرکز قائم ہوگا۔