کتاب۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بہترین ساتھی

books

books

کتنا اچھا زمانہ تھا جب لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا رجحان بہت زیادہ تھا ۔لائبریری جانا ٫کسی بک شاپ میں جانا ٫ضرورت یا پسند کی کتاب خریدنا اور پھر اسے بڑی لگن اور محبت سے پڑھنا٫ پھر سنبھال کر رکھنا ۔کتنا خوبصورت دور تھا وہ جب کتا بوں سے ایک خاص دوستی اور رشتہ بن جا تا تھا ۔اور پھر ان خوبصورت کتابوں کو پڑھنے کا مزہ ہی اور تھا۔ موجودہ دور ایک سائنسی دور ہے ۔اس جدید اور ٹیکنا لوجی کے دور میں بہت سے مشکل کام صرف ایک بٹن دبانے سے انجام پا جاتے ہیں۔یہ وہ دور ہے جب انسان نے اپنی ضرورت اور سہولت کی ہر چیز تیار کر لی ہے۔کبھی ایسا بھی وقت تھا کہ جب پیغام رسانی کا کام جانوروں اور پرندوں سے لیا جاتا تھا ۔ پیغام بھی ناجانے کتنے دنوں میں پہنچتا تھا ۔مگر آج صرف ایک بٹن دبانے سے یہاں کا میسج وہاں اور وہاں کا میسج یہاں۔۔۔۔چاہے کتنا ہی فاصلہ کیوں نہ ہو٫ صرف ایک بٹن دبانے سے ہم ہزاروں میل دور بیٹھے کسی اپنے سے بات کر سکتے ہیں۔یہ سائنس اور ٹیکنا لو جی کا ایک سب سے بڑا فائدہ ہے کہ اس نے فاصلے اور دوریاں مٹا دی ہیں۔ ذرا ئع آمدورفت کی نت نئی ایجادات سے فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی مہینوں٫دنوں اور گھنٹوں کا کام چند منٹ یا سیکنڈ میں ممکن ہو گیا ہے۔

بات ہو رہی تھی کتا بوں کی۔۔۔۔۔آج نئی نسل کتاب ہاتھ میں پکڑنے سے بھی کتراتے ہیں۔ اکثریت ہم میں سے ایسی ہی ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ان طلباء و طالبا ت کی ہے جو جدید ٹیکنا لو جی سے آراستہ کا لج یا یو نیو ر سٹی میں پڑ ھتے ہیں جہاں پرانی لائبریریز کی جگہ اب ڈیجیٹل لائبریریزنے لے لی ہے۔اس کا فا ئدہ تو بہت ہوا مگر کتا بوں سے دوری بڑھتی گئی۔۔۔۔میرے اپنے گھر کی بات ہے جو میں یہاں بتانا ضروری سمجھتی ہوں ٫میرے دادا جان جو کہ علمی وادبی دنیا سے ہی وابستہ تھے میں نے خود ان کی الماری ایسی انمول کتا بوں سے بھری دیکھی ہے جو اب نایاب ہیں۔ان میں مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال کی بہت سی کتابیں شامل ہیں۔اس کے علا وہ فارسی کی بھی بہت سی تاریخی کتا بیں مو جود ہیںانھیں جو کتاب پسند آتی تھی وہ لے آتے تھے اور اس وقت سب سے اچھا تحفہ بھی کتاب کو ہی سمجھا جاتا تھا ٫اور آج بچہ بچہ گفٹ میں موبائل یا لیپ ٹاپ مانگ رہا ہوتا ہے۔خیر ۔۔۔۔یہ سب کیا تھا۔۔۔ ہمارے بڑے کیوں کتا بوں سے اتنے وابستہ رہتے تھے۔

آج ایسا کیوں نہیں ہے ہم میں ۔۔مجھ میں یا میری عمر کے دوسرے طلباء و طلبات میں۔یہ جو ایک خاص قسم کی محبت تھی کتابوں سے٫ایک دوستی ٫ایک خوبصورت رشتہیہ اب کیوں ختم ہو گیا؟اب یہاں ہم سا ئنس یا ٹیکنا لو جی کو برا کہیں یا اچھا؟ کتابیں پڑھنے کے رجحان میں کمی آنے میں کا فی حد تک اس کا بھی تو کردار ہے نا!آج ہم نے کوئی کتاب لینی ہوتو ہماری پہلی ترجیح انٹرنیٹ ہے۔اور ہم سب جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ موجودہ دور کی ایک ایسی ایجاد ہے جس نے ساری دنیا کے علم کو ایک تار میں لپیٹ دیا ہے۔ہمیں ہماری ضرورت کی ہر کتاب انٹرنیٹ پہ آسا نی سے مل جا تی ہے۔پھر ہم سو چتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے کسی لائبریری یا بک شاپ جانے کی! وہ کتا ب چا ہے معمولی سی رقم کی ہی کیوں نہ ہو ہم پہلے انٹرنیٹ کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔انٹرنیٹ کے فوائد سے کو ئی بھی انکار نہیں کر سکتا بلکہ آج تو اس انفار میشن ٹیکنا لو جی کے بغیر کوئی بھی فیلڈ مکمل نہیں ہے۔لیکن جس طرح کہا جا تا ہے کہ ہر چیز میں کچھ نفع اور کچھ نقصان ضرور چھپا ہوتا ہے۔بس وہی بات آجا تی ہے کہ ہم اپنی ثقا فت سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں۔ کتابوں سے لاتعلقی میں انٹرنیٹ کا بھی کردار ہے۔

book

book

ہر طرح کے اخبار ٫رسالہ٫ناول یا کوئی بھی کتاب جو بھی ہم پڑھنا چاہیں سب کچھ ہی ایک بٹن دبا نے کی دوری پر۔پھر کون کرتا ہے اتنی تکلیف کہ وہ با ہر سے کوئی کتا ب لا کر پڑھے ۔ہمارے دما غ ہی ٹیکنیکل بن چکے ہیں صرف فائدہ اور آسانی ہی سو چتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔خیر یہ سب کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ایجادات سے فائدہ ضرور اٹھائیں کیونکہ وہ انسان کی سہولت کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں۔مگر اپنی ثقافت اور روایات کو بھی برقرار رکھیں۔کم از کم اس حد تک ضرور رکھیں جس حد تک رکھ سکتے ہیں۔ کتابوں سے خوبصورت دوستی اور رشتہ ضرور برقرار رکھیں۔اچھی کتابیں سب سے بہترین ساتھی ہیں۔

تحریر : عائشہ چوہدری