کتاب کلچر کے فروغ میں قومی و ملّی ذمہ داری

books home

books home

یہ حقیقت ہے کہ کوئی درسگاہ اور تعلیم یافتہ معاشرہ کتاب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا،اسی طرح تعلیم اورکتب خانے بھی ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں، تعلیمی اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہو سکتیں، لہٰذا تحقیقی ضروریات کیلئے اضافی کتابوں کا ہونا بہت ضروری ہے، جنہیں منظم اشاعتی اداروں اور کتب خانوں کی مدد سے پورا کیا جاسکتا ہے،خیال رہے کہ معاشرتی ترقی کا انحصار اِس بات پر ہے کہ عوام مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے ہم آھنگ ہوں،اُن کی علمی سطح جتنی بلند ہوگی ملک بھی اتنی ہی ترقی کرے گا،آج کے جدید دور میںعلم کے حصول کا سب سے بڑاذریعہ ہمارے سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں، مگراِن میں صرف نصابی تعلیم دی جاتی ہے،یہ تعلیمی ادارے علم کی انتہاء نہیں ہیں،بلکہ یہاں سے لوگ اپنے راستے سے آگاہ ہوتے ہیں اور عملی زندگی کے راستوں پر مسلسل گامزن رہنے کیلئے کتابیں اور کتب خانے تلاش کرتے ہیں، اِس لحاظ سے کتابوں کی اہمیت اِس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ صحیح معنوں میں حصول علم کا ذریعہ ہیں، لہٰذا یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ جو راستہ تعلیمی اداروں سے نکلتا ہے وہ کتاب اور مکتبوں پرآکر ختم ہو جاتاہے کہ یہاں پر ہر قسم کا علم بغیر کسی پابندی اور رکاوٹ باآسانی مل جاتا ہے۔کہتے ہیںکتاب کا انسان سے تعلق بڑا پرانا ہے اور کتاب نہ صرف انسان کی بہترین دوست ہے،بلکہ یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بھی بے پناہ اضافہ کرتی ہے اورخود آگاہی اور اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کاادراک پیدا کرتی ہیں،یہ بات کچھ غلط بھی نہیں، دنیا میں کتب میلے منعقد کرنے کا مقصد لوگوں میں کتاب کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے،اِس حوالے سے پاکستان میں ناصرف معلوماتی سیمینارز اور کتب میلے منعقد کروانے کی اشد ضرورت ہے ،بلکہ اس موقع پر حکومتی اور نجی سطح پر عوام میں شعور بیدار کرنے کیلئے معلوماتی پروگرامز شروع کرنے کی بھی شدید ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان میں ایک تو شرح خواندگی بہت کم ہے ،دوسرے مہنگائی کی وجہ سے کتاب دوستی میں بھی بہت کمی واقع ہوئی ہے، اِس رجحان میں کمی کی دیگر وجوہات میں معلومات کے جدید ذرائع کمپیوٹر، انٹرنیٹ اورموبائل فون بھی شامل ہیں،جب سے لوگوں میں اِن جدید ذرائع کے استعمال کی شرح بڑھی ہے ، کتاب دوستی اور اُس کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ہے،اسی وجہ سے ہمارے نوجوانوں میں ذوق مطالعہ کی کمی ہے ،جس کا سہراکسی حد تک کمپیوٹر اورموبائل فونز پر جاتا ہے،جہاں اِن کے بے شمار فوائد ہیں، وہیں یہ نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل کے پاس کتاب پڑھنے کا وقت نہیں ،لیکن دن رات انٹرنیٹ چیٹنگ اور فضول و عشقیہ ایس ایم ایس کرنے میں انہیں کمال حاصل ہے،جس کی وجہ سے مطالعہ کی عادت ختم ہوتی جارہی ہے ،لیکن آئی ٹی کے اِس دور میںجبکہ انٹرنیٹ پر موجود مواد اورebooksیعنی برقی کتابوں کی موجودگی کے باوجود بھی کتابوں کی اہمیت اور افادیت کسی  طورکم نہیں ہوئی ، آج بھی پاکستانی معاشرے کے 70 فیصد افراد کیلئے کتاب معلومات اور حصول علم کا اہم اور بنیادی ذریعہ ہے ،جبکہ علم و ادب کے شائقین بھی کتب بینی میں بھر پور دلچسپی لیتے ہیں،اسی رجحان کو فروغ دینے اور برقرار رکھنے کیلئے نیشنل بک فاؤنڈیشن اور وزات تعلیم کے زیر انتظام پاکستا ن کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ساتویں پانچ روزہ عالمی کتب میلہ کا آغاز ہو چکا ہے، اِس کتاب میلے کو برطانوی سفارتخانے اور آکسفورڈ پریس کی طرف سے بھی اسپانسر کیا گیا ہے، جو 16دسمبر سے 20دسمبر تک جاری رہے گا،کراچی میں منعقد اِس نمائش کے انعقاد کا مقصد نہ صرف پاکستانی مصنفین کی کتابوں کی اہمیت واضح کرنا ہے بلکہ عوام میں کتابیں خریدنے اور مطالعے کے شوق کو بھی اجاگر کرنا ہے،کراچی کے ایکسپو سینٹر میں جاری اِس نمائش میں مشہور پاکستانی مصنف احمد رشید جن کی لکھی ہوئی’ ‘طالبان” نامی کتاب امریکہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔
سمیت سو سے زائد مصنف اور ادیب حصہ لے رہے ہیں،جبکہ برطانیہ، امریکہ، فرانس ، جرمنی اور بھارت سے تعلق رکھنے والے تین مصنف بھی اِس کتب میلے میں شریک ہیں۔ کراچی میں جاری کتب میلے میں پاکستان کی مقامی زبانوں کے علاوہ کئی پبلشرز کا تعلق برطانیہ ، عرب ممالک، بھارت ، ایران ، سنگاپور ، تھائی لینڈ،یونان ،ترکی ، ملائیشیا اور برطانیہ وغیرہ سے ہے،واضح رہے کہ کراچی میں گذشتہ سال عالمی کتب میلے میں پونے تین لاکھ کے قریب لوگ کتابیں خریدنے کیلئے آئے تھے، نمائش کے منتظمین اِس سال پہلے سے زائد افراد کی شرکت کی توقع رکھتے ہیں،رواں سال کتب میلے میں مختلف کتابوں پر 15 سے 45 فیصد تک رعایت رکھی گئی ہے،یہ کتب میلہ روزانہ صبح دس سے رات نو بجے تک جاری ہے، جس میں ملک اور بیرون ملک کے سو سے زائد پبلشرزکتب میلے کا حصہ بنے ہوئے ہیں،جو اپنے ساتھ مختلف زبانوں میں بہترین کتابوں کا انتخاب لے کر آئے ہیں،کتب میلے میں250 کے قریب ملکی و غیر ملکی بک اسٹالز لگائے ہیں،جن پردنیا کے ہر موضوع پر کتابیں موجود ہیں،اِن اسٹالز پر پاکستان کی مقامی زبانوں کے علاوہ عربی، انگریزی، فارسی، ترکی سمیت کئی دیگر زبانوں کی کتب شامل ہیں،اِن کتابوں کودیکھنے اور خریدنے کیلئے مقامی لوگوں کی جوق در جوق آمد کا سلسلہ جاری ہے ،خاص طور پر قاری الیاس صاحب کی ”بولتی کتابوں”کا منفرد اسٹال بچوں اور خواتین کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے،ساتویں عالمی کتب میلے کے دوران ایکسپو سینٹر میں مختلف ادبی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے، جن میں مختلف ٹاک شوز کے علاوہ سیمینارز اور پبلشرز کی نئی کتابوں کی تقریب رونمائی بھی شامل ہے، کتابوں کے غیر ملکی اسٹالز کے علاوہ میلے میںمقامی اور علاقائی زبانوں کی کتابوں کو بھی اہمیت دی گئی ہے،جن میں سندھی ، پشتو ، سرائیکی میں کتابوں کے اسٹالز بھی شامل ہیں۔ قارئین کی معلومات کیلئے یہ بتانا ضروری ہے کہ کراچی کے ایکسپو سینٹر میں پہلا عالمی کتب میلہ 2005 ء میں منعقد کیا گیا تھا ،اُس کے بعد سے یہ سلسلہ کامیابی سے جاری ہے، کتب میلے کے منتظم اورپا کستان پبلشرز اور بک سیلرز ایسوسی ایشن کے چیئر مین خالد عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کو عام کرنا اُن کے ادارے کا بنیادی مقصد ہے،وہ کہتے ہیں کہ کتاب کے بغیر تعلیم ممکن نہیں،اُن کا خیال ہے کہ نجی شعبے میں رہتے ہوئے اِس طرح کے میلوں کو منعقد کر کے ہم یہ کوشش کر سکتے ہیں کہ اپنے بچوں اور نوجوانوں میں کتابوں سے دوستی کے رجحان کو فروغ دیںاور والدین کو کتابوں کی اہمیت کا احساس دلائیں ، کیونکہ جب بچے اچھی کتابیں پڑھیں گے تو تربیت اچھی ہو گی اور اچھی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں ہمیں اچھی قیادت میسر آئے گی، جس سے ملک ترقی کرے گا اور معاشرے سے لاقانونیت، بدامنی، بے روزگاری، بد انتظامی اور لسانی و صوبائی تعصب سمیت بہت سے مسائل میں کمی آئے گی ، کراچی میں جاری ساتویں عالمی کتب میلے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کا کہنا تھا کہ ہر سال کتب میلہ کا کامیابی سے انعقاد اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ لوگوں میں کتب بینی کا شوق موجود ہے اور وقت کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ سال ایک لاکھ نوے ہزار کے قریب خاندانوں نے ایکسپو سینٹر کا رخ کیا تھا،جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی،چونکہ اس سال گذشتہ سال کی نسبت ز یادہ تعداد میں پبلشرز عالمی کتب میلے کا حصہ ہیں،اِس لیے منتظمین کو سال گذشتہ سے زیادہ شائقین کتب کی شرکت کی امیدہے،انہیں امید ہے کہ اِس سال بھی اہلیانِ کراچی بڑی تعداد میں ایکسپو سینٹر آئیں گے اور بقیہ دنوں میں یہاں لوگوں بہت زیادہ رش ہوگا،یقینا کثیر تعداد میں شائقین کتب کی شرکت منتظمین کیلئے جہاں حوصلہ افزاء بات ہوگی، وہیں یہ عمل یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں کتب بینی کا شوق فروغ پارہا ہے،لیکن کم آمدنی والا طبقہ اپنے محدود وسائل کی وجہ سے اِس قسم کی نمائش سے کوسوں دور ہے،کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”بچہ ہی مستقبل کا باپ ہے” آج کے والدین کل بچے تھے اور آج کے بچے ہی کل کے اچھے اور ذمہ داری شہری ہونگے، لہٰذا اُن کی تربیت اِس انداز سے کی جائے کہ اُن میں فروغ مطالعہ کی عادت پختہ ہو اور وہ تمام عمرحصول علم میں مگن رہ سکیں، چنانچہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ حکومت کتاب کلچر کو فروغ دینے کیلئے کتابوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرے اورعام آدمی کیلئے سستی و معیاری کتابوں کا حصول آسان بنائے تاکہ غریب عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل میں مطالعہ کی اہمیت اور عادت کو پختہ کیا جا سکے۔تحریر : محمد احمد ترازیmahmedtarazi@gmail.com