سپریم کورٹ (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کراچی میں کوئی ایساشخص نہیں جو بھتہ نہ دیتا ہو، عدالت کو سیاسی امورسیدلچسپی نہیں، وہ صرف گڈ گورنس اورلوگوں کی جان مال کاتحفظ چاہتی ہیں۔ کیس کی سماعت آج پھر ہو گی۔گذشتہ سماعت کے دوران تمام تھانوں کے ایس ایچ اوزاوردیگرافسران عدالت عظمی میں موجود تھے۔ لارجربینچ کے سربراہ انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہم نے تو صرف آئی جی کو بلایا تھا، آپ لوگ اپنے علاقوں میں واپس جائیں اگر یہیں بیٹھے رہے تو لوگوں کی خدمت کون کرے گا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے آئی جی پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کا تحفظ پولیس کی ذمیداری ہے۔
گذشتہ 13 ماہ میں مرنے والوں کے خون کا حساب کون دے گا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ صبح کا اخبار پڑھیں توگلے سے چائے نہیں اترتی۔ عدالت عظمی کو بتایا گیا کہ صوبے میں 10 لاکھ اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ ایم پی اے کو 200 اورایم این اے کو 300 اسلحہ لائسنس جاری کرنا کرپشن کے ساتھ ان کاحلقہ انتخاب مضبوط کرنا ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ ایسا تو دیگرصوبوں میں بھی ہوتا ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ مسٹر فتاح ملک ہر جگہ ایسا نہیں ہوناچا ہئے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ توقع نہیں تھی کہ آپ برائی کومثال کیلئے استعمال کریں گے۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے سوال کیا کہ آج تک کتنے لوگ مرے ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نیجواب دیا کہ آج کا سکور 6 ہے۔ اس جواب پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ کیا لوگوں کا مرنا اسکورنگ ہے، یہاں چوکے چھکے لگ رہے ہیں۔ ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر نے عدالت عظمی کو بتایا کہ رینجرز بغیر کسی دباؤ کے کاروائی کرتی ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نہ آپ ایف آئی درج کرسکتے ہیں، نہ چالان پیش کرسکتے ہیں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ بلوچستان کی طرح رینجرز کو سندھ میں بھی پولیس کے اختیارات ملنے چاہیئں۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے ڈی جی رینجرز سے کہا کہ آپ نے صنعت کاروں کو تحفظ دینے کا کہا تھا کیا بنا۔ اس پر ڈی جی رینجرز کچھ نہ بولے تو بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیئے کہ کراچی میں کوئی شخص ایسا نہیں جو بھتہ نہ دیتا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ بھتہ خوروں نے اب علاقے بانٹ لئے ہیں۔ لارجربینچ نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ کی استدعاپرچیف سیکرٹری سندھ، ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو حاضری سے مستثنی قرار دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔