سپریم کورٹ(جیوڈیسک)سپریم کورٹ نے ٹارگٹ کلنگ واقعات پر ایڈووکیٹ جنرل پر اظہار برہمی کرتے اسلحہ لائنسس کمیپوٹرائزڈ کرنے کی پالیسی بنانے کا حکم دیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہزاروں اسلحہ لائنسس ہولڈر مر چکے ان کے لائنسس استعمال ہو رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں لارجر بینچ نیجسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں کراچی میں امن و امان کیس کی سماعت کی ۔ ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل رضوان اختر اور آئی جی سندھ فیاض لغاری ،چیف سیکرٹری سندھ راجہ غلام اور ایڈشنل چیف سیکرٹری برائے داخلہ عدالت میں موجود تھے . سماعت کے دوران صوبائی الیکشن کمیشن کا تحریری جواب پیش کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرنا فی الحال ممکن نہیں. نئی مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیاں از سر نو تشکیل دینا ممکن نہیں. جسٹس انور ظہیر جمالی کے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں سیاسی امور سے دلچسپی نہیں ہم گڈ گورنس اور لوگوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا صبح کا اخبار پڑھیں تو گلے سے چائے نہیں اترتی۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا اسلحہ لائنسس کمیپوٹرائزڈ کرنے کے لیے پالیسی بنائیں۔ انہوں نے کہا تین سے چھ ماہ میں جو اسلحہ لائنسس کمپیوٹرائز نہ ہوں اسے منسوخ کرکے جرمانہ کیا جائے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہزاروں لائنسس ہولڈر مر چکے ہیں لیکن لائنسس آج بھی استعمال ہورہے ہیں۔
جسٹس خلجی عارف حسین کا ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے کہا کہ پولیس کی ڈیوٹی ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے جس میں آپ ناکام ہوچکے ہیں۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ شہریوں کا کام نہیں کہ وہ اسلحہ لے کر خود اپنی حفاظت کریں۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کو 13 ماہ ہوگئے ہیں اس دوران مرنے والے افراد کا حساب کون دے گا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا 8 سے دس افراد کے قاتلوں کو بھی اسلحہ لائسنس جاری کیے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا حالات کا یہ عالم ہے کہ اگر تین افراد مریں تو شہری شکر ادا کرتے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ میں کمی تسلیم کرلیتے ہیں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاایم پی اے کو 200 اور ایم این اے کو 300 اسلحہ لائسنس جاری کردیے جاتے ہیں یہ کرپشن اور حلقہ انتخابات مضبوط بنانے کا طریقہ ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے کہا یہ دیگر صوبوں میں بھی ہورہا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ آج تک کتنے لوگ مرے ہیں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب میں کہا آج کا سکور 6 ہے اس پر جسٹس سرمد جلال عثمانی کے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کیا لوگوں کو مرنا اسکورنگ ہے۔ یہاں چوکے چھکے لگ رہے ہیں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ اگر ہم بیٹھ کر کرسیوں کی حفاظت کرتے رہے تو کچھ نہیں کرسکتے۔ لارجر بینچ نے کہا کہ گزشتہ ساڑھے چار سال سے پھانسیوں پر عملدرآمد نہیں ہوا اگر کسی وجہ سے سزائے موت نہیں دینا چاہتے تو قانون سازی کرلیں۔ پھانسی کے ملزم رحم کی اپیلوں پر فیصلے میں تاخیر کے لیے ماہانہ بنیاد پر پیسے دیتے ہیں۔
تین ہزار سے زائد قیدی سزائے موت کے فیصلے پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ ڈی جی رینجرز نے کہا کہ استغاثہ کی کمزوری کی وجہ خطرناک ملزمان چھوٹ جاتے ہیں۔ بینچ نے پوچھا کونسا ملزم ؟ ۔ ڈی جی رینجرز نے جواب دیا جیسے اجمل پہاڑی۔ پراسیکیٹر جنرل شہادت اعوان نے کہا کہ اجمل پہاڑی کے خلاف 17 مقدمات تھے کوئی گواہ نہیں آیا اس لیے ضمانت ہوگئی۔ عدالت نے چیف سیکرٹری، ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ پولیس کو ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی استدعا پر حاضری سے مستشنی قرار دے دیا اور سماعت کل تک ملتوی کردی۔