گزشتہ ہفتہ، کراچی کی تاریخ کا سب سے خونریز ہفتہ ثابت ہوا جس میں ہر روز 15 افراداور مجموعی طور پر 106افراد ہلاک ہوئے جبکہ قومی خزانے کو 21 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔اس خطیر مالی و جانی نقصان کے باوجود حیرت انگیز طور پر صوبے کی قیادت دہشت گردوں کے خلاف عملی اقدامات اٹھانے کے بجائے شہر میں فوج بلانے یا نہ بلانے کی طویل بحث میں الجھی رہی۔ پرتشدد واقعات کا آغاز 17 اگست کو اس وقت ہوا جب شہر کے مختلف علاقوں سے لیاری کے پانچ نوجوانوں کی بوری بند لاشیں ملیں۔ اس قتل کے بعد اولڈ سٹی ایریا میں نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا جبکہ پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی واجہ کریم داد، اور ان کے ساتھیوں کو بھی فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔ان واقعات کے بعد گھروں ، دکانوں اور بسوں سے شہریوں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کر کے لاشیں پھینکنے اور فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ سترہ اگست سے 23 اگست تک سات دنوں میں مجموعی طور پر 106 افراداور یومیہ اوسطا 15 افراد لوگ ہلاک ہوئے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے مطابق کراچی میں بد امنی سے قومی خزانے کو یومیہ تین ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اس طرح سات دنوں میں یہ نقصان21 ارب روپے بنتا ہے ۔ پاکستان جیسے غریب اور ترقی پذیر ملک کے مستقبل کومدنظر رکھا جائے تو یہ اعدادو شمار انتہائی لرزہ خیز ہیں، انہیں روکنے کے لئے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت تھی مگر سیاسی مصلحت کے ہاتھوں مجبور ہوکر سیاسی قیادت ہفتے بھر میں ایک بھی اقدام نہ اٹھاسکی۔ شہرمیں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے سبب حکومتی حلیف جماعتوں اے این پی ، مسلم لیگ فنکشنل ، ایم کیو ایم سمیت قوم پرست جماعتوں ، علما اور تاجر برادی کی جانب سے فوج طلب کرنے کے مطالبے نے زور پکڑا لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت اور ارباب اختیار کی سوچ اس معاملے پرآخر تک تقسیم نظر آئی۔ بلاخرسات دنوں بعد 23 اگست کو فیصلہ کیا گیاکہ فوج کے بجائے رینجرز اور پولیس ہی امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے کافی ہوں گے۔