بھارت کے 180 قیدیوں کو ہفتہ کی صبح کراچی سے رہا کر دیا گیا ہے۔ پولیس حکام نے بتایا کہ ان میں سے 179 بھارتی ماہی گیر ہیں جب کہ رہائی پانے والا ایک شخص بغیر ویزے کے پاکستانی حدود میں داخل ہوا تھا۔ کراچی کی ملیر جیل سے رہا ہونے والے بھارتی قیدی کو بسوں کے ذریعے لاہور روانہ کیا گیا جہاں سے اتوار کو واہگہ سرحد پر بھارتی حکام کے حوالے کر دیا جائے گا۔ جیل کے ڈپٹی سپریٹنڈنٹ پولیس رفیق احمد اعوان نے کہا کہ رہائی پانے والے بھارتی شہری اپنی سزا مکمل کر چکے تھے۔ ہمارے پاس ڈسٹرکٹ جیل ملیر میں جو انڈین رہتے ہیں، وہ تقریبا 362 باقی رہتے ہیں۔ یہ اپنی سزا پوری کر چکے تھے اور پوری لسٹ ہم انڈینز کو بھیجتے ہیں اور وہ جو چھانٹی کر کے دیتے ہیں وہی قیدی ہم واپس کرتے ہیں۔ بھارتی قیدی حسین میاں نے رہائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے متعلقہ حکام سے کہا دونوں ملکوں میں قید ماہی گیروں کی جلد از جلد رہائی کے لیے طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔ سمندر میں ہمیں پتہ تو نہیں چلتا ہے وہاں کوئی سرحدیں تو نہیں بنی ہوئی ہیں جس سے ہم سرحد کو پہچان سکیں تو نیوی کے ہاتھ میں آ جاتے ہیں اور ہمیں یہاں لے کر چلے آتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج ناصر اسلم زاہد کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم سزا پوری کرنے والے بھارتی قیدیوں کی رہائی کے لیے فوری اقدامات کرتی ہے۔ انھوں نے کہا یہ ماہی گیر غلطی سے اس لیے پاکستانی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں کیوں کہ ان کی کشتیوں میں ایسے آلات نہیں لگے ہوئے ہیں جن سے یہ پتہ چل سکے کہ کہاں سے دوسرے ملک کی سمندری حدود شروع ہو رہی ہیں ۔ اگر کوئی پاکستان میں جانتے ہوئے کہ میرے پاس ویزا نہیں اور وہ کراس کرے گا تو اس کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال ہے لیکن عموما ان کو ایک سال سزا ملتی ہے۔ناصر اسلم زاہد کا کہنا ہے کہ اب تک پاکستانی جیلوں میں موجود بھارتی قیدیوں کی رہائی ان کی سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت کا سفارت خانہ اپنے ملک کے قیدیوں کی شہریت کی تصدیق کرتا ہے جس کے بعد ہی رہائی عمل میں آتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دونوں ملکوں میں یہ معمول ہے کہ اگر ماہی گیر غلطی سے دوسرے ملک کی سمندری حدود عبور کر لیں تو انھیں حراست میں لے لیا جاتا ہے ۔ لیکن حالیہ برسوں میں پاکستان اور بھارت میں ایسے قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی کوششوں سے سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے والے قیدی ماضی کے برعکس جلد رہا کر دیے جاتے ہیں۔