نشہ اس کو کہتے ہیں جو عقل کو اندھا کر دے اور یہ نشہ بھی کیا چیز ہے ویسے تو نشہ ایک ایسی بری لعنت ہے جو انسان کو بہکا دیتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔ اس کو کسی اور چیز کا کوئی خیال نہیں رہتا اپنے پرائے اور اچھے برے کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔ جب وہ نشے میں ہوتا ہے توایسی باتیں کرتا ہے جیسے اس دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی ہے ہی نہیں۔ آپ منشیات کا استعمال کرنے والے کی مثال لے لیں جب وہ شراب یا اور کوئی نشہ آور چیزاستعمال کرتا ہے تو وہ بہک جاتا ہے اور پھر پورے محلے اور گھروالوں کو سر پراٹھا لیتا ہے ،وہ ایسی الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اللہ سب کو ایسے نشے سے بچائے مگر نشے کی ایک اور قسم بھی ہے وہ ہے کرسی (اقتدار) کا نشہ۔ جی ہاں ہر انسان جو کسی بھی کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے وہ اپنے اندر کی انسانیت بھول جاتا ہے اور کرسی کا جائز اور ناجائز استعمال کرتا ہے۔
آپ اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالیں تو میری بات سے سو فیصد اتفاق کریں گے کہ یہ حقیقت ہے۔ اگر آپ کسی چھوٹی ہوٹل میں جا کر دیکھ لیں وہاں پر بھی کرسی پر بیٹھے گاہک کبھی بھی ہوٹل کے ملازم کو بھائی ، چھوٹے بھائی، بیٹا کی آواز سے نہیں پکاریں گے بلکہ وہ چھوٹے یا ٹیبل بجاکر بلاتے ہیں۔ کسی پرائیویٹ فرم میں دیکھ لیں وہاں پر موجود کرسیوں پر بیٹھ کر کام کرنے والے آفیسر دوسرے ملازمین سے بہت حقارت کے ساتھ کام لیتے ہیںیہاں تک کہ وہ اپنے ماتحت ملازمین پر ڈنڈے اور تھپڑ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ یہ جو حرکت کررہے ہیں وہ اس کرسی کے شایان شان بھی ہے کہ نہیں؟ نہ وہ کوئی بدمعاش ہیں اور نہ تھپڑ کھانے والا کوئی کمزور بس اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف کرسی کا۔ایک لوکل کونسلر سے یونین ناظم تک اور لوکل حکومت سے وفاق تک دیکھ لیں یہ اقتدار کے نشے میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ یہ سب الیکشن کے دوران گھر گھر جاکر ووٹ مانگتے ہیں اور اگر کسی کے پیر بھی پکڑنا پڑ یں تو اس بھی گریز نہیں کرتے۔
اگر کوئی فلاحی کام کرنے کی ڈیمانڈ کی جائے تو وہ بھی فوراًکرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، مگر جیسے ہی جیت کا اعلان سنتے ہیں وہ خود کو ایک الگ مخلوق سمجھنے لگتے ہیں۔ اپنے آپ کو ہوا میں اڑتا محسوس کرتے ہیں، جب وہ کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو پھر جو کل تک گھر گھر ووٹ مانگ رہے تھے آج اس ہی شخص سے آنکھ پھیر لیتے ہیں۔ ملکی صدارت کا نشہ تو سب سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ جوبھی اس کرسی پربیٹھتا ہے وہ اس کا کھل کر استعمال کرتا ہے اوربھول جاتا ہے کہ کہ کرسی کبھی کسی کی جاگیر نہیں رہی اور نہ ہی اس نے کسی کے ساتھ وفا کی ہے۔ سب کو یاد ہے کہ جب پرویز مشرف صدر تھا تو وہ جلسوں میں اپنی تقریر کے اختتام پر بڑے فلمی سٹائل کے ساتھ مُکے بنا کر دکھایا کرتا تھا۔ جب تک وہ کرسی پر بیٹھا رہا اس کا مُکا چلتا رہا اور جیسے ہی کرسی سے نیچے اترا وہ چندماہ بھی پاکستان میں نہ ٹھہر سکا اور آج وہی مشرف ہے جو پاکستان آنے کے لیے ترس رہا ہے۔ آئے روز آنے کا اعلان کردیتا ہے مگر آ نہیں سکتا کیونکہ جو اس نے اس کرسی پر بیٹھ کر بیجا ہے وہ ہی اب کاٹ رہا ہے۔
مشرف کی طرح اب زرداری نے بھی جلسوں میں وہی کام شروع کردیا ہے۔ وہ بھی نازیبا الفاظ کا کھلے عام استعمال کررہا ہے۔ وہ گردن سے سریا نکالنے کی باتیں کررہا ہے تو کبھی کسی کو اقتدار دلانے کی باتیں کرتا ہے اگر سریا نکالنا ہے تو ان کی گردن سے نکالیں جو ملکی آئین کی خلاف ورزی کرتے اور عدالتوں کا احترام نہیں کررہے اگر سریا نکالنا ہے تو امریکہ کی گردن سے نکالیں جو آئے دن ہمارے ملک میں ڈرون حملے اور ملک کے اندرونی معاملو ں میں مداخلت کر رہا ہے۔ اگر سریا نکالنا ہے تو بھارت کی گردن سے نکالیں جو کشمیر پر قابض ہوا بیٹھا ہے اور ہمارے مسلمان بھائیوں کا قتل عام کررہا ہے۔ جناب صدر! آپ پاکستان کے صدر ہیں آپ کسی ایک پارٹی کے نہیں؟ صدر کی حیثیت اس باپ کی سی ہے جو اپنی اولاد کو اکٹھا رکھنے کے لیے پل کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اس کی اولاد میں سب کی عادات مختلف ہیں ۔ ان کو اکٹھا رکھنے کے لیے وہ سب کے ناز نخرے برداشت کرتا ہے اور اگر ان میں لڑائی بھی ہوجائے تو صلح بھی اسی کو کرانا ہوتی ہے۔ مگر ادھر تو کام اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ بجائے اس کے صدر پاکستان جو بھائی آپس میں لڑ رہے ہیں ان میں صلح کرائیں بلکہ وہ خود ایک پارٹی بن رہے ہیں۔اگرصدر پاکستان اپنے گھر(ملک) کو برے اثرات سے بچانا چاہتے ہیں تو ان کو پی پی کے خول سے باہر نکل کر ایک گھر کے سربراہ کی حیثیت سے فیصلے کرنا ہونگے۔
سچے پاکستانی اور مسلمان حکمران کی حیثیت سے تمام سیاسی، معاشرتی اور اقربا پروری کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کی فلاح کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہوئے اکٹھا کریں تاکہ ملکی مسائل (مہنگائی، کرپشن، بے روزگاری، ناانصافی، رشوت ستانی) پر قابو پایا جاسکے اور ملک دشمن عناصر کو پتہ چل سکے کہ پاکستان سیاستدان ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے یکجا ہیں۔ اگر ایسانہ کیاگیا تو ہم دنیا کے لیے تماشا بن جائیں گے اور ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود خاک کے ذرے کی حیثیت میں رہ جائیں گے۔