ماہرین اور اقتصادیات کے منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ کرپشن ایک عالمگیر مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔مگر یہ دلیل سوچنے اور سمجھنے والے ذہن قبول نہیں کر پا رہے ، اس لئے کہ ہمارے ملک کو آزاد ہوئے 65سالوں کا طویل عرصہ بیت چکا ہے اور جمہوری نظامِ حکومت کو اپنانے کے باوجود یہاں کرپشن کا بول بالا نہ صرف تعجب خیز ہے بلکہ افسوسناک بھی ہے ۔ کرپشن کا گراف اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ عام آدمی کو سرکاری محکموں یا عوامی خدمات کے جائز معاملے میں بھی رشوت دینا پڑتی ہے، کیونکہ اس کے بغیر کوئی اور چارہ نہیں بچتا۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ متعدد اور رپورٹ بھی مختلف تجزیاتی اداروں کی جانب سے وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں جس کے اعداد و شمار دیکھنے سے ملک کا ایک خراب چہرہ دنیا کے سامنے نظر آتا ہے۔
حکمرانوں کی خوشحالی کو تنگ آمد بجنگ آمد کیلئے ایک عالمی ادارہ قائم ہے جسے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کہا جاتا ہے۔ اس ادارے کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ ادارہ کرپشن کو آر پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اب یہ اور بات ہے کہ اس کا اپنا آر پار ٹرانسپیرنٹ نہ ہو۔ اس ادارے کی تازہ ترین رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان کرپشن میں 34ویں نمبر پر آگیا ہے۔ اب سوچنے اور سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ان نمبروں سے کیا لینا دینا، مگر حقیقتِ حال اس سے کہیں زیادہ بدحال ہے۔ رشوت دیئے بغیر کوئی کام ممکن ہی نہیں ہے۔ کام چاہے کسی سرکاری چپڑاسی (میسنجر) سے یا کسی اعلیٰ افسر سے ہوآپ بغیر رشوت دیئے اس کام تک رسائی نہیں پا سکتے۔ رشوت کتنی دینی ہے اس کا فیصلہ بھی کام کی نوعیت دیکھ کر ہی طے کیا جاتا ہے۔ آپ کو اگر ترقی کرنا ہے تو رشوت دینا لازمی جزو ہے جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہی کرپشن ہماری بربادی کا ساماں بھی ہے۔ کسی مکان کی سیل ڈیڈ کرانی ہو یا پانی کا کنکشن حاصل کرنا ہو، مطلب یہ کہ سوئی سے لیکر جہاز تک کسی بھی محکمے میں کسی بھی نوعیت کا کام ہو بغیر رشوت کے حل نہیں ہوتا۔ یہ ہے ہمارا کرپٹ ترین معاشرہ، نوکری کیلئے جایا جائے تو رشوت، اب تو شناختی کارڈ بھی بنوانے کوئی جائے تو رشوت طلب کی جاتی ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اکثر و بیشتر ہمارے میڈیا چینلز پر پروگرام نشر ہوتے رہتے ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ کرپشن کہاں تک پہنچ چکا ہے۔
ہماری قومی سیاست کی لَو اسٹوری اور سیاست کی پلے بیک پر غور کیا جائے تو سب کچھ واضح ہو جاتا ہے کہ کرپشن ان سب کے گھٹیوں میں شاید رچا بسا ہے جبھی تو یہ سب محلات میں رہتے ہیں اور روز افزوں ترقی کی بے پناہ منازل طے کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کا غریب آج بھی وہیں کھڑا ہے، بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پستی کی طرف جانے کا سفر جاری و ساری ہے۔عالمی سطح کے شمار کنندگانِ دولت کا یہ کہنا ہے کہ ہندوستان اور امریکہ ہی کیا پاکستان کے امیروں کی حالت بھی بہت اچھی ہے اور انہی کی وجہ سے کرپشن کا بازار بھی چل رہا ہے۔ ہزارہا بار کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی گئی اور آج بھی کہیں نہ کہیں سے یہ آواز آہی جاتی ہے مگر تاحال اس کے خاتمے کیلئے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھا یا جاتا۔ اور اٹھایا بھی کیسے جائے جبکہ اوپر سے نیچے تک سب ہی کرپشن کے دلدادہ ہیں۔ اگر ہم سب اپنے اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ ان تمام حالات کے ذمہ دار ہم سب ہی ہیں اور یہ حالات جب تک نہیں سدھریں گے جب تک ہم خود اپنے آپ کو بدلنے کے دَر پہ نہیں ڈالیں گے، اگر اب بھی ہم سب نے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش اور سعی شروع نہ کی تو (میرے منہ میں خاک) ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
Pakistan Media
آج بھی آپ دیکھئے کہ ہر روز میڈیا میں ،اخباروں میں ہمارے یہاں بڑے بڑے کرپشن کی کہانیاں دکھائی اور سنائی جا رہی ہیں ، مگر ہمارے یہاں کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اس کی تردید ہی کر دے، حج جیسے معتبر سفر میں کرپشن اور رشوت کی تمام کہانی آپ سب کے سامنے ہی ہے ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب حج جیسے معتبر کام میں اس طرح کارواج ڈالا جائے گا تو بقیہ کاموں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن سے متعلق 2012ء کی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایک سال کے دوران پاکستان میں کرپشن کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ 2011ء میں بدعنوان ملکوں میں پاکستان کا نمبر 42واں تھا اور 2012ء میں یہ نمبر 33واں ہوگیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سال کے دوران اربوں روپئے کی بدعنوانی کی گئی، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ پاکستان کیلئے انتہائی مایوس کن اور ابتر صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
ہمارے جو حکمراں اور ماہرینِ اقتصادیات پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں (کاش یہ خواب شرمندۂ تعبیر بھی ہو جائے) مگر جو صورتحال اس وقت نظر آ رہی ہے اس سے تو بخوبی یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف اور صرف کاغذ اور باتوں تک ہی محدود ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ عام آدمی بالخصوص نچلے متوسط طبقے کی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں، بدعنوان افسران، سیاست داں، ٹھیکیدار اور اسی طرح کے دوسرے اشتراک نے کرپشن کو اور بھی زہرناک کر دیا ہے۔ جب عوام کی ضرورتیں پوری نہیں ہونگی اور بدعنوان معاشرہ کے چنگل سے ملک کو نجات نہیں ملے گی اس وقت تک پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نہیں ہو سکتا، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے جلد سے جلد حکمرانوں اور ماہرینِ اقتصادیات کو سمجھ لینا چاہیئے۔
ڈیلی کی بنیاد پر اس طرح کے کرپشن کی خبریں سُن سُن کر یہ اندازہ لگانا ناممکن نہیں ہے کہ ہم وہ خوش قسمت ترین قوم ہیں جن کو زندگی کا سبق لینے کے لئے کسی دوسری سمت کی طرف دیکھنے کی ہرگز ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ ہمارے ماضی قریب اور بعید کی تاریخ میں یہ سب کچھ موجود ہے جو ان سب کی رہنمائی کرنے کے لئے کافی سمجھی جا سکتی ہے۔آگے بڑھنے کے سبق بھی ماضی اور حال میں ملتے ہیں اور عبرت کے نمونے بھی اسی میں پِنہاں ہیں ، ضرورت ہے تو صرف گریبان میں جھانکنے کی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی۔
کرپشن کے اس عروج میں ہمارے قانون کا دخل بھی ہے کیونکہ یہاں بدعنوانی کوئی بڑا گناہ نہیں سمجھا جاتا، اسی لئے جتنی بھی بڑی مچھلیاں بدعنوانی کے الزام میں پھنستی ہیں آخر کار چھوٹ جاتی ہیں، لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ بدعنوان عناصر کے درمیان جو مضبوط اشتراک قائم ہے اس کو توڑا جائے نیز بلا امتیاز سزا اور احتساب کا نظام رائج کیا جائے تاکہ صبح و شام کے اسکینڈل، اور کرپشن گھوٹالوں پر فُل اسٹاپ کا مہر لگ سکے۔
کرپشن کے یہ سارے قضیے (قصے) جو تحریر ہیں ، یہ کچھ بھی نہیں ہے اس سلسلے میں آپ میڈیا کے ذریعے جو اپ ڈیٹ حاصل کرتے ہیں اس سے اندازہ لگایئے کہ معاشرے کا کیا حال ہے ، اور کرپشن، رشوت ستانی، بد عنوانی کس حد تک ہمارے معاشرے میں رَچ بس چکی ہے۔ میں تو ان تمام لوگوں سے اتنا ہی کہوں گا کہ جو وطنِ عزیز کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا چاہتے ہیں ،اب بھی وقت ہے سب کچھ ٹھیک کر لیں ، تاکہ ملک ترقی یافتہ ہو جائے اور غریب اور متوسط طبقہ پِسنے سے بچ جائے۔ ورنہ تو روزآنہ کی خبریں اور میرے اس مضمون کے لئے یہ جملہ ہی کافی ہے کہ: میرے اور تمام لکھنے والوں کی آواز صرف قبرستان میں اذان دینے کی حد تک محدود رہ جائے گا۔