کچھ غم میرے شہر کے

Pakistan School

Pakistan School

سرائیکی وسیب کے لوگ اپنے معصوم بچے کو اکثر ابا اور بچی کو اماں کہہ کر پکارتے ہیں ۔اس وسیب سے نابلد لوگ یہ سن کر حیران رہ جاتے ہیں کہ معصوم بچہ کیسے ابا اور معصوم بچی کیسے اماں بن سکتی ہے۔لیکن زمینی حقائق کو جان کر بات کی تہہ تک پہنچ جانے والے جان جاتے ہیں کہ یہ لوگ بچے اور بچی کو مستقبل کے حوالے سے دیکھتے ہیں اور پھر پکارتے ہیں ۔کیونکہ کم وبیش تمام بچے اس منز ل پر ضرور پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح میں اپنے آبائی قصبے ڈب بلوچاں کو شہر کہتا ہوں ۔ڈب یونین کونسل کی آبادی کم وبیش 30,000 ہزار نفوس پر مشتمل  ہے ۔ جی پی او ڈب سے تین کلومیٹر کے ایریا میں سات بوائزاور چھ گرلز پرائمری سکول ہیں۔جبکہ دو گرلز اور دو ہی بوائز ہائی سکول اس ایریا میں موجود ہیں(شرح خواندگی پر پھر کبھی بات کریں گے)۔لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ صحت کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔بچا کھچاایک سب ہیلتھ سنٹر تھا جسے 2004 میں بند کردیاگیا۔اور اس طرح غریب انسان کو سرمیں درد یا معمولی حرارت کی صورت میں ڈھیر سارا سرمایہ لگانے پر مجبور کر دیا گیا۔غریب کا سرمایہ تین سو روپے دیہاڑی ہی ہوتی ہے وہ بھی اگر مل جائے اور پھر اسی میں سے بچوں کا پیٹ اور باقی معاملات نبھانے ہوتے ہیں لیکن شاید یہ ملک 64سال میں غریبوں سے محض ووٹ ہی لیتارہااور پسماندہ طبقہ پستاہی رہا۔کہنے کو   توڈب جی ۔پی۔او سے رولر ہیلتھ سنٹر حافظ والا کا سفر صرف گیارہ کلومیٹر ہے ۔لیکن سفری سہولیات نہ ہونے کی بناء پر غریب کو جان کے لالے پڑجاتے ہیں ۔ڈب سے حافظ والا تک پہنچانے والی واحد عوامی سواری ڈاٹسن ہی ہے جو کہ اپنی ہی مرضی سے چلتی ہیں اور دوپہر ایک بجے کے بعد ڈب شہر سے آر ایچ سی تک جانے کا بندوبست سپیشل ہی کی صورت میں کیا جاسکتاہے کیونکہ اس کے بعد کوئی قابل اعتماد ڈاٹسن ٹائم روانہ نہیں ہوتا۔اور رہ گئی بات ایمرجنسی کی تو ایسے حالات میں غربت کی چکی میں پستے اس دیہی علاقے کے باسیوں کو ٹیکسی کار کی سہولت میسر آسکتی ہے جس کا کرایہ چار سو کے لگ بھگ ہے جبکہ رات کی تاریکی میں کرایہ میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔جو کہ ہر شخص کے لیئے افورڈ کرنا ممکن نہیں ۔جنوری 2010سے لے کر مارچ 2011تک 572ڈلیوری کیسز سامنے آئے ۔ایک کیس کے بعد جو مقامی سطح پر دائی ہی نے کیا تھا  کی روادواراقم نے باوثوق ذرائع سے سنی تو آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے ۔۔زچہ کی حالت اس قدربگڑ گئی کے اس کے پائوں سوج گئے اور بدبو آنے لگی۔راقم اور اس کے ایک عزیز نے گھر جا کر اسکے خاوند سے صورتحال معلوم کی تو افواہ حقائق پر مبنی نکلی۔اسکے معصوم بچوں نے اپنی نومولود بہن کوسادہ سے کپڑے میں لپیٹ کرخود ہی دفن کیا۔  جو(نومولود بچی) ڈلیوری سے قبل صحت عامہ کی بروقت سہولیات نہ ہونے کے باعث والدہ کے پیٹ ہی میں دم توڑ گئی تھی۔اس نازک موقع پر اس بچی کا باپ ایک طرف بیٹی کے مرنے کاغم تودوسری جانب بیوی کی بگڑتی صحت سے پریشان تھا۔کیونکہ اس کی جیب کرایہ کی اجازت نہ دیتی تھی ۔جس باپ کے پاس بیٹی کے کفن کے لیئے روپے نہ ہوں ۔وہ زچہ کا علاج کیسے کروائے گا۔اللہ میرے کزن کو اولاد سے نوازے جس نے غربت کی چکی میں پستے اس شخص کی مدد کی ۔اور اس کی بیوی کا علاج کروایا۔یہ تو وہ کیس ہے جو ہمیں معلوم ہوا لیکن ناجانے کتنے لوگ اس بے رحم معاشرے کی لاپرواہی کی نذر ہوگئے۔
جنوری 2010سے مارچ2011تک 96اموات ڈب یونین کونسل کا مقدر بنی جن میں ایکسیڈنٹ سے ہونے والی اموات بھی شامل ہیں ۔1999میں میرے خاندان کے پانچ افراد نے 65340مربع فٹ رقبہ ہسپتال کی خاطر محکمہ صحت کو عطیہ کیا۔ذرائع کے مطابق 2001میں بنیادی مرکزصحت منظور ہوگیا۔لیکن تاحال کسی نے توجہ نہیں دی گورنمنٹ کی جانب سے ایک اینٹ بھی اس رقبہ کی زینت نہ بن سکی ۔البتہ وزیراعلی پنجاب کی جانب سے تجویز کردہ موبائل ہیلتھ یونٹ ہرماہ میں سے ایک دن اس علاقے کو بھی عنایت کرتاہے۔اس دن کافی سارے لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں۔یہ اپنی طرز کی ایک سہولت ہے۔لیکن اس سے میرے شہرکے زخم مندمل نہیں ہوسکتے ۔کیونکہ مصیبت کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہوتا ۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافرمان ہے :اگرفرات کے کنارے کتے کا بچہ بھی بھوکا مر گیا تو اس کا جواب دہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوگا۔ایک حدیث شریف کے مفہوم میں ہے کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتاہے۔لہذا میری وزیراعلی پنجاب سے اپیل ہے کہ یونین کونسل ڈب بلوچاں تحصیل پپلاںضلع میانوالی آپ کی خصوصی توجہ کا منتظرہے۔اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحات اسے بھی عطاء کیجئے اللہ آپ کو اس کا صلہ ضرور دے گا۔سمیع اللہ خان

ssbox381@gmail.com