کہاں جاپان کو جائیں؟ کہاں جاپان کو جاؤ

map japan

map japan

ٹوکیو میں یہ ہمارا تیسرا پھیرا تھا۔ ایک روز ہندوستانی پاکستانی کھانے کی تلاش میں گنز نکل گئے۔ وہاں سب سڑکیں اور سب عمارتیں ایک سی ہیں۔ ہرچند کہ بدرقہ ساتھ تھا، اتنا بھٹکے کہ بے حال ہو گئے۔ ٹائر ہوٹل جسکا راستہ ہمارے خیال میں آتا تھا نہ ملنا تھا نہ ملا۔ پی آئی اے کے سیلز آفس میں گئے۔ وہاں ایک جاپانی بیٹھا ایک افغانی کا ٹکٹ بنا رہا تھا۔ وہ بھی ہماری مدد نہ کر سکے۔ آخر اشوکا کا ہوٹل کا بورڈ دیکھ کر اندر چلے گئے اور وہیں بھوجن کیا۔ ہم سے کراچی سے ٹوکیو جانے کو کہیے تو ہم بہ دل و جان تیار ہیں لیکن اپنے ہوٹل سے اٹھ کر گنزایا کہیں اور جانے کو ہم سے نہ کہیے۔

جاپانی پہلوانوں کی کشتی ہم نے ویسے تو نہیں دیکھی، ٹیلیویژن پر دیکھی ہے۔ جو رائے کسی باہر والے کی ہمارے پکے گانے کے باب میں ہو سکتی ہے، وہی ہماری اس کشتی کے بارے میں ہے۔ معیار ہمارے ہاں صحت و تنومندی کا یہ ہے کہ چھاتی نکلی رہے اور کمر دبی رہے۔ چنانچہ چیتے کی کمر کو رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جاپانی پہلوان اپنا پورا بدن نکالتا ہے۔ خصوصاً پیٹ، جب تک وہ نیل کے ماٹ کی طرح لٹک کر تھل تھل، نہ کرے، پہلوان کوکشتی کے لائق نہیں سمجھا جاتا۔ آدمی کیا ہوتا ہے، گوشت اور چربی کا پہاڑ ہوتا ہے۔

sumo wrestling

sumo wrestling

پہلے مینڈک کیطرح ہاتھ ٹیک کر، پیٹھ اٹھا کر، ایکدوسرے کو گھورتے ہیں۔ پھر نمک اٹھا کر چھڑکتے ہیں، یا نہ جانے کیا کرتے ہیں۔ اسکے لیے پہلوان کو بہت کھانا پڑتا ہے۔ بے تحاشا کھانا، لیٹنا اور ڈکارنا پڑتا ہے۔ ایسے کام کی ممانعت ہے جس میں چربی کے ذرا سا ڈھلنے کا بھی خطرہ ہو۔ اس کشتی سے لطف اندوز ہونے کیلئے ذوق چاہیے اور وہ دو چار دن میں نہیں۔ دو چار نسل ہی میں پیدا ہو سکتا ہے۔

ایسا ہی ذوق جاپان کے روایتی تھیٹر” کابوکی ” کو پسند کرنے کیلئے بھی مطلوب ہے۔ ہم نے ایکبار دیکھا دوسری بار دیکھنے کی ہوس نہیں ہے بلکہ تاب بھی نہیں ہے۔ اس میں ایک سی کہانی ہوتی ہے اور ایک سی تغیری بجتی ہے اور ایک سی حرکات ہوتی ہیں اور ایک سی سکنات کیلئے دو بیبیاں پس منظر میں بٹھا دی جاتی ہیں جو برابر گھٹنوں کے بل بیٹھی رہتی ہیں۔ ایک آدھ عورت جوڑا بنائے ہاتھ میں ہنجر یا قرولی لیے ہیرو کے آس پاس گھومتی رہتی ہے۔ ہر کہانی میں ایک کٹا ہوا سر ضرور شامل ہوتا ہے۔ اسلیے کٹا ہوا سر رکھنے کا ڈبا سازوسامان کا لازمی جزو ہے۔ نہایت اسپروافزا کھیل ہے۔ ویسے تو ہمارا کلاسیکل چیزوں کے متعلق ایسا ہی خیال ہے۔

ٹوکیو میں ہوٹل والے ہر روز ایک ماچس اور ایک چھپے ہوئے کپڑے کا کوئی جامہ ہمارے کمرے میں رکھ دیتے تھے۔ ایک روز کھول کے دیکھا تو وہ کیمونو تھا، ڈریسنگ گون نما چیز۔ شاید اسکو نائٹ سوٹ کے طور پر استعمال کرتے ہونگے۔ ایک آدھ بار ہم نے پہن کر دیکھا، ڈھیلا ڈھالا تھا۔ ہمیں تو خوش نہ آیا۔ اس پر ٹھپے سے جگہ جگہ گرینڈ پیلس ہوٹل بھی لکھا ہوا تھا۔ ورنہ ہم بھول چوک سے اسے اپنے کپڑوں میں رکھ کے لے آتے اور آپ صاحبان کو دکھاتے۔ اسے چوری کا نام نہیں دے سکتے۔ تحفہ لانا الگ چیز ہے جیسے ہم ماچسیں جمع کر کے لے ہی آتے ہیں۔ ایک چپل بھی ہمارے کمرے میں دھری رہتی ہے۔ اس پر بھی ظالموں نے گرینڈ پیلس ہوٹل نقش کر رکھا ہے ورنہ تحفے کیلئے بری نہیں تھی۔ ہم بدنیتی سے تو نہ لاتے لیکن ہمارے جوتوں کیساتھ غلطی سے تو آ سکتی تھی۔ ہمیں یہاں آکر پتا چلتا کہ ہم لے آئے ہیں۔ بھلا اتنی سی چیز پر ہوٹل کا ٹھپہ لگانے کی کیا ضرورت ہے۔

tokyo

tokyo

ہم ٹوکیو سے باہر ” ہاکونے ” بھی گئے کہ ایک ٹھنڈا پہاڑی صحت افزا مقام ہے۔ راستے میں ایک آدھ جگہ ٹھیکی لی۔ کوکا کولا وغیرہ پیا اور بھٹہ خرید کر کھایا۔ مہنگا نہیں تھا۔ ایک بھٹہ ہمارے حساب سے چار روپے کا پڑا ابلا ہوا نمک سمیت۔ یہاں ہمیں جس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا وہ بہت بڑا، ہزار کمرے سے زیادہ کا، دور دور تک پھیلا ہوا ہوٹل تھا۔ بارش ہو رہی تھی اور اطراف میں جنگل ہی جنگل تھا۔ وہ دن ہفتے کا تھا، اسلیے بہت رش تھا۔ بیشمار جاپانی جوڑے چھٹی منانے پہنچے ہوئے تھے۔ ہماری مغربی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے پلنگ ماڈرن ڈالے گئے تھے لیکن ایک کونے میں چبوترا بھی تھا جس پر چٹائیاں بچھی تھیں اور آلتی پالتی مار کر بیٹھنے کیلئے گدے تھے۔ بیچ میں چوکی اور چوکی پر چائے کا پورا سامان کیمونو پہن کر بیٹھیں اور چسکی لگائیے۔

ہاکونے کے راستے میں مسٹر نوما کر پرانا مکان پڑتا ہے۔ مسٹر نوما کون ہیں، انکے تعارف کی یہاں گنجائش نہیں۔ ہماری کئی برس سے یاد اللہ ہے۔ پاکستان بھی آ چکے ہیں۔ خود تو وہ ٹوکیو میں بیمار ہیں لیکن ہمارے خیر مقدم کا انتظام انکے داماد نے کیا تھا۔ یہ روایتی طرز کا دیہاتی مکان ہے، چٹائیاں ہی چٹائیاں ، کھڑکیوں میں شیشوں کی بجائے کاغذ، نیچی نیچی چوکیاں۔ یہاں جاپانی انداز کی مٹھائیوں اور چائے کا انتظام تھا۔ بہرحال اس مکان اور ہوٹل کو دیکھ کر جاپان کا کچھ کچھ نقشہ معلوم ہوا ورنہ مرکزی ٹوکیو کی عمارات تو ویسی ہی ہیں جیسی کسی بھی ماڈرن شہر میں ہوتی ہیں، جدید ، محکم اور فلک پیما۔

اے صاحبو! جاپان تو جدید ہے لیکن جاپانی اتنے جدید نہیں ہیں۔ انکا طرز فکر وہی ہے کہ جو تھا۔ سلام و طعام اور نشست و برخاست سب میں سرگشتہ خمار رسوم وقیود ہیں۔ یہ نہ سمجھیے کہ چغے پہنے پھرتے ہیں یا ساری عورتیں سر پر جوڑے بنائے کمر کے پیچھے گدی باندھے پنکھا کرتی نظر آتی ہیں۔ کام کاج کا سارا لباس مغربی ہے کہ آسانی اسی میں ہے۔ تاہم آپس میں سلام سر جھکا کر ہی کرتے ہیں۔ خواہ سڑک پر ٹریفک ہی چل رہا ہو اور لوگوں کا راستہ بھی رکتا ہو۔ اسکیلئے فاصلے کا بھی احترام ہے( مصافحے کا دستور نہیں) اور یہ آداب بھی مقرر ہیں کہ کس درجے کے آدمی کے آگے کتنا جھکنا چاہیے۔ تھوڑا جھکنا یا کمر کو دہرا کرنا لازمی ہے۔ تحفے کا لین دین بھی انکی طبعی عادات و رسوم میں ہیں۔ جس کو تحفہ دیا جائے اسکے لیے لازم ہے کہ اس سے دو پیسے زیادہ کا تحفہ لائے اور جوابی تحفے کی قیمت کچھ قدرے زیادہ ہونی چاہیے۔ اگر دو فریقوں میں پے درپے تحفوں کا تبادلہ ہوتا ہے تو جان لیجیے کہ تھوڑے دنوں میں یا تو دونوں دیوالیہ ہو جائینگے یا سمجھدار ہوئے تو کوئی بات نکال کر ترکِ تعلق کر لینگے۔

suicide

suicide

اور اے لوگو! آداب کے ذکر میں سنئے کہ جاپان میں خودکشی تک کے آداب ہیں۔ ہاراکیری ایک رسم ہے۔ لوگ مجمع عام کرتے ہیں۔ دو مشہور مصنفین نے، جن میں ایک نوبل انعام یافتہ بھی تھے اور جن سے اسٹاک ہوم میں ملاقات کا شرف ہمیں حاصل ہو چکا ہے، کھلے خزانے خودکشی کی ہے۔ اسکیلئے قاعدے مقرر ہیں کہ خنجر پیٹ میں کس طرح گھونپا جائے، کتنا گھونپا جائے اور گھونپتے وقت کپڑے کیسے ہونے چاہییں اور نشست کیسی ہونی چاہیے۔ خودکشی ایک پورا فلسفہ ہے۔ یہ نہیں کہ ریل کے نیچے سر دیدیا۔ زہر پھانک لیا یا چھت سے چھلانگ لگا دی یا سمندر میں ڈوب گئے۔ ہر بات کا کوئی قاعدہ ہوتا ہے۔ قانون ہوتا ہے۔

تحریر: ابن انشاء