کیا حکمرانوں کا مشغلہ عوام کو ٹینشن دینا ہی رہ گیا ہے

Pakistan

Pakistan

اگر آج  ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ نہ صرف معلوم بلکہ یقین بھی ہوجائے گا کہ ہمارے معاشرے میں جتنی بھی بُرائیاں موجود ہیں آج یہ تمام بُرائیاں خودرو پودے کی طرح پنپ کر ہمارے ماحول میں بُرائیاں پھیلانے والے جنگل کی شکل اختیار کرگئیں ہیں اور اِس جنگل کے ہر درخت کی ہر شاخ کا تعلق کہیں نہ کہیں سے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے بھی جاملتا ہے اور اِسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بسا اوقات ایسا لگنے لگتا ہے کہ جیسے یہ ہی وہ اہم عناصر ہیں آج جن کی دیدہ دانستہ غلطیوں کی وجہ سے  ہمارے معاشرے میں جو ہر طرح کی برائیاں تیزی سے پھیل رہی ہیں اِس کے اصل ذمہ دار بھی یہی لوگ ہیں جو ہم  پر کبھی حکمرانی کی شکل میں تو کبھی حزبِ اختلاف کی صورت میں چہرے بدل بدل کر مسلط ہوتے ہیں اور جن کے ذاتی مفادات کی وجہ سے ہونے والی غلطیوں کا خمیازہ بھی ساری قوم کو بُھگتنا پڑ رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کسی کو تکلیف مت دو اِس لیئے کہ یہی سب سے بڑا گناہ ہے مگر شاید ہمارے حکمران اور سیاستدان یہ معقولہ بھول چکے ہیں تب ہی تو اِنہوں نے عوام کو پریشان کرنے اور اِنہیں طرح طرح کے ٹینشن دینے کا ایسا مشغلہ اپنا لیا ہے کہ اِنہیں عوام کو ذہنی اذیتیں دینے سے سرور محسوس ہوتا ہے جس کا اظہار یہ لوگ کچھ اِس طرح کرتے ہیں کہ یہ عوام کو پہلے والی پریشان کُن کیفیت سے نکلنے بھی نہیں دیتے ہیں کہ اپنی دانش سے ایک نئے ٹینشن سے دوچار کردیتے ہیں جو اِس جانب واضح اشارہ ہے کہ یہ عوام کو پریشان کرنے اور اِنہیں ٹینشن میں مبتلادیکھ کر کتنے خوش ہوتے ہیں اِن لوگوں کی اہلیت اور دانش کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی عوام کو ٹینشن میں رکھنے کا بنالیا ہے اور اِسی مقصدِحیات کو بنیاد بناکر یہ اپنی ساری طاقت اِس میں صرف کررہے ہیں اور اِسی طرزِ حکمرانی اور طرزِسیاست کو تھام کر یہ سمجھتے ہیں کہ اِن کی حکمرانی اور سیاست کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔

ہمارے حاکموں نے 64 سالوں سے یقینی طور پر بس یہ چاہا ہے کہ عوام کو نہ کچھ دیا جائے اور نہ کچھ بتایا جائے اِنہیں اندھیرے کنوئیں میں رکھ کر اِس کا مینڈک بنا دیا جائے جو اِس کے علاوہ کسی اور کا سوچ ہی نہ سکیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور عوام میں ہر زمانے میں دوریاں پیدا رہیں اور آج یہ دوریاں اِس حد کو پہنچ چکی ہیں کہ نہ تو عوام کو اپنے حاکموں پر اعتبار رہا ہے اور نہ حاکم ہی اپنے عوام کی بہتری کے لئے کچھ کرنے کا سوچتے ہیں یہی وہ سب سے بڑی خامی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک اور معاشرے میں بہتری کے مواقعہ مسدُود ہوگئے ہیں ۔

اگرچہ اِس صُورتِ حال کے پیشِ نظر ایک خاص طبقے کی رائے یہ ہے کہ حکمرانوں اور عوام کے درمیان پائی جانے والی دوریوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ اِس پر ہمارا خیا ل یہ ہے کہ ایسانہیں ہے کہ عوام اور حکمرانوںکے بیچ پڑنے والی دراڑ کو ختم کیا جاسکتا…اور اِس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والی خلش ایک سادہ اور آسان فارمولے سے ختم کی جاسکتی ہے اور وہ فارمولا یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کو فیوچر میں عوام کے بہت زیادہ قریب آناہوگا تاکہ عوام کو اپنی سیاسی قیادت پر اعتماد بحال ہو اور یہی سیاسی قیادت جب مستقبل میں اپنی کوئی حکومت تشکیل دے تو یہ سب سے پہلے اپنے قول و فعل میں حق و سچ کا پرچم تھامے اپنے عوام میں آئے تو عوام کے سامنے اپنا ایک ہی چہرہ رکھے اور اپنے فیصلوں ، منصوبوں اور حکمتِ عملیوں سے اِنہیں آگاہ کرے ایساکچھ نہ کرے جیسا ماضی میں ہمارے یہاں ہوتا آیا ہے۔اِن تمام باتوں کے باوجود بھی اگرآج ہمارے حاکموں اور سیاستدانوں نے اپنی طرز حکمرانی اور سیاست یہی رکھی جو جاری ہے اور اپنے عوام کو پریشان کرنے اور طرح طرح کے ٹینشن دینے کی رو ش پر قائم رہے تو پھر ایسے میں ہماری قوم جو پہلے ہی اپنے حاکموں اور سیاستدانوں کے بے حس رویوں اور ملک میں ہر لمحہ ہونے والی منہ توڑ اور سینہ زور مہنگائی ، کرپشن، لوٹ مار اور قتل وغارت گری کی وجہ سے ٹینشن میں مبتلاہے یہ اِس پریشانی سے نہ نکل سکی اور ملک کے حالات ایسے ہی رہیں یا شائد اِس زیادہ اور بگڑجائیں تو اِس کے ذمہ دار اپنے حکمران اور سیاستدان خود ہوں گے۔

بہرحال! ہماراکام اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور اُس اضطراب سے آگاہ کرنا تھا جس کا صبر کا پیمانہ کسی بھی وقت لبریز ہوکر حکمرانوں کے شیشے کے محلوں کو کرچی کرچی کرسکتا ہے پھر اِن کے ہاتھ سوائے کفِ افسوس کے اور کچھ نہیں آپائے گا اِس لئے قبل اِس کے کہ ننگے ، بھوکے، مفلس عوام سے کوئی انقلاب سر اٹھائے حکمرانو، سیاستدانوں اور حکمرانوں کی حکمرانی میں معاونت کرنے والوں کو اپنا قبلہ یقینی طور پر درست کرلینا ہوگا۔اُدھر عالمی تنظیم صحت کی طرف سے ایک ایسی رپورٹ شائع ہوئی ہے جو ایک خبر بھی ہے تو ایک المیہ بھی ہے جس کے مطابق دنیا بھر میں 2030ء تک فتور دماغی کے مریضوں کی تعداد 2گناہوکر 65.7بلین تک پہنچ جائے گی اِس پر خود اقوام متحدہ کے ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر دنیا میں پست ماندہ ممالک میں بسنے والے لوگوں کے خورا ک، رہائش اور صحت جیسے بنیادی مسائل فور ی طور پر حل نہ کئے گئے تو 2050ء تک یہ تعداد موجودہ35.6بلین سے تین گنا سے بھی زائد ہوسکتی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت آنے سے پہلے ہی دنیاکے تمام ممالک کو سر جوڑ کر آنے والے اِس وقت کی سنگینی کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو تیارکرنا ہوگا اور ہر ملک کو اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ا بھی سے اِس جانب سنجیدگی سے ایسا لائحہ عمل مرتب کرناہوگاکہ وہ اپنے لوگوں کو اِس پریشانی سے بچا سکے خاص طور پر ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو تو ضرور اپنے عوام کے لئے سوچنا چاہئے کہ یہ بیچارے اِنہی کے رویوں کی وجہ سے ابھی سے ہی دماغی فتور کے امراض میں مبتلاہیں اگر اِنہیں اِس کیفیت سے نہ نکلاگیا تو پھر یقینی طور پر 2030 اور 2050 میں جو بدترین صورت حال ہمارے ملک کی ہوگی وہ دنیا کے کسی بھی ملک کی اُس وقت نہیں ہوگی اِس کی وجہ ہم نے اوپری سطور میں بیان کردی ہے ایسی کیوں ہوسکتی ہے ۔

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم