خواتین پر تیزاب پھینکنے سمیت اِن پر اور دوسرے جسمانی ظلم و ستم کرنے والوں کو عمر قید اور جرمانے کا ترمیمی بل سینٹ سے منظور ہوجانے کے بعد ہمارے یہاں مردوں کے معاشرے میں اکثریت رکھنے کے باوجودبھی استحصال کی چکی میں پسنے والی ہماری آج کی مظلوم عورت میں یقینا ذراسا یہ حوصلہ ضرور پیدا ہو گیا ہو گا کہ اِس کو اب تحفظ فراہم ہوجائے گا ورنہ تو اِس سے پہلے یہ نہتی اور مجبور تھی اور اب اِس نے اپنے آپ کو مردوں کے ظالم معاشرے میں محفوظ سمجھناشروع کردیاہوگا اِس لئے گزشتہ دنوں سینٹ کے اجلاس میں سینیٹر نیلوفربختیار نے تحریک پیش کی کہ مجموعہ تعزیراتِ پاکستان 1860اور مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898میں مزید ترمیم کا بل سینٹ میں پیش کیا (واضح رہے کہ قومی اسمبلی اِس بل کی پہلے ہی منظوردے چکی) اور اِب اِس بل کی ایوانِ بالانے بھی بھرپورطریقے سے اتفاق رائے سے منظوری دے کر ملک میں ایک ایسی تاریخ رقم کردی ہے جس کی مثال مدتوں دی جاتی رہے گی یہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سینٹ نے خواتین پر تیزاب پھینکنے کے المناک واقعات کی روک تھام ، عورت کی قرآن سے شادی ، بدلہ صلح میں عورت کودینے، ونی ، سوارہ، جائیداد سے محروم اور جبری شادی سمیت ہمارے معاشرے میں عورت پر ظلم و ستم کے حوالے سے رونماہونے دیگر واقعات سے متعلق دوالگ الگ ترمیمی بل اتفاق رائے سے منظورکرلئے جس میںسزاوں سے متعلق تحریرہے کہ خواتین پر تیزاب پھینکنے والوں کو عمر قیدیا 14سال قید کی سزا ہوگی جبکہ عورت کے عضو کاٹنے پر دس سال قید، خاتون کی قرآن سے شادی کرنے پر بلاتفریق(امیر و غریب مرد کے) 3سے 7سال تک قید ، خواتین کی جبری شادی ، ونی یا سوارہ میں دینے پر پانچ لاکھ جرمانہ ہوگا، جائیداد سے محروم کرنے پر 5سے 10سال قید اور جرمانہ کیاجائے گا سینٹ نے اِس طرح اِس بل کی منظور ی کے بعد اپنے یہاں عورت کو جس طرح تحفظ کا احساس دلایاہے یقینا یہ ہمارے ایوانوں کا مستحن اقدام ہے مگر اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ جن لوگوں نے اِس کو منظور کیاہے اب یہی اِس پر فی الفور عمل درآمد بھی تو کرائیں تب بات بنے ورنہ تو ایسے قانون کا کیا فائدہ جو کتابوں اور فائلوں میں تو موجود ہو مگر اِس کا معاشرے میں کوئی اطلاق نہ ہوتو یہ سب اقدامات بے معنی ہوکر رہ جائیں گے۔ اِس موقع پر ہم یہ کہیں گے کہ الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے مذہب اسلام نے عورت کو اپنے یہاں جو احترام اور رتبہ دیا ہے اِس سے دنیا کے دیگر ادیان کی پیروگار عورتیں محروم ہیں ہمارے یہاں عورت کے روپ میں جتنے بھی رشتوں کے سوتِ پھوٹتے ہیں وہ سب کے سب مقدس ہیں اِس سے زیادہ ہم اپنے یہاں عورت کو ملنے والے مقام وحقوق اور مرتبے سے متعلق زیادہ بیان کرنایوں نہیں چاہیں گے عورت کے مقام اور مرتبے اور اِس کے حقوق سے متعلق ہم اپنی مقدس کتابوں میں بچپن سے پڑھتے اور اپنے علمائے دین سے اول روز سے ہی سنتے آرہے ہیں بس اِن پر اگر ہم عمل کرنے لگیں تو کوئی مشکل نہیں کہ ہماری عورتوںکو قرآ ن وسنت کے مطابق وہ سارے حقوق مل جائیں جن کی یہ حقدار ہے مگرافسوس کے ساتھ ہمیں یہاں یہ کہناپڑرہاہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے اپراور لوئیر کلاس کے پڑھے لکھے اور جاہل ایسے مرد افراد بھی موجود ہیں جوخود کو مسلمان تو فخریہ کہلاتے ہیں مگر جب اِن کے سامنے اِن کے مقدس رشتوں سے جڑی ہوئیںعورتوں کا معاملہ آجاتاہے تو اِن کی سوچیں محدود ہوجاتی ہیں اورجب کوئی عورت اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرناچاہتی ہے تو یہی لوگ اِس کو اپنے ظلم و ستم سے اِسے نشان عبرت بنادیتے ہیں اوریہ اپنے مرد ہونے کا پورافائدہ اٹھاتے ہوئے دین ودھرم اور معاشرتی قوانین کی پابندیوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اِن پرایسے اِنسانیت سوز مظالم کرتے ہیں کہ عورت تاریخ کی کتابوں میں قصہ پارینہ بن کر رہ جاتی ہے۔ مگر ہم یہاں بات کریں گے دنیاکے ان اہلِ دانش کی جو مسلم تو نہیں ہیں مگر یہ(ہلِ دانش)اپنے نزدیک عورت کے بغیر دنیا کو بے نور سمجھتے ہیں لارک سے کسی نے پوچھا آپ کا عورت سے متعلق کیا خیال ہے تو اِ س نے کہاکہمیں تمہیں بتاوںکہ دنیامیں جتنے بھی پھول ہیں اِن میں سب سے زیادہ خوب صورت عورت ہے شیکسپئیر جو اپنے زمانے کا ایک ایسا دانشورمرد گزرا ہے جس کے مشاہدات حقیقت کے قریب تررہے ہیں اِس کی نظر میں عورتیں ایسی کتابیں، ایسی تصویریں اور ایسے دبستان ہیں کہ جن میں ساری دنیابستی ہے اور جو تمام دنیا کی پرورش اور تریبت کرتی ہیںاِس میں کوئی شک نہیں کہ دنیاکی تمام خوشیاں عورت کے دم سے ہیں اگریہ نہ ہوتی تو دنیاایک اجڑے دیارکی مانند ہوتی کہنے والوں نے تو یہ تک کہاہے کہ عورت اِنسان اور فرشتوں کے درمیان ایک ایسی مقدس مخلوق کا نام ہے جس کے بغیر دنیا کا تصور نہیں کیاجاسکتاہے عورت کا دل ہمیشہ چاند کی مانند بدلتارہتاہے اور یہ جتنی دور سے خوب صورت دکھائی دیتی ہے اتنی ہی قریب آنے سے اور زیادہ حسین اور دلکش ہوجاتی ہے یقینی طور پر عورت ایک ایسا مہکتاہواپھول ہے جو اپنی دلکش خوشبو سے مرد کے چمنستانِ حیات کو بھی مہکادیتی ہے ہمیں ایک جرمن کہاوت یا د آگئئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ بدمعاشوں اور ذیلوں سے بھی محبت کرنے والی ہستی خداکے بعد عورت ہے چیخوف کا کہناہے کہ عورت مرد سے زیادہ محنتی، سمجھ دار اور نیک ہے بھلائی کے کام اِس سے اِس طرح سرزد ہوتے ہیں کہ جیسے آسمان سے رم جھیم کرتی بارش برستی ہے اور آخر میں ہم یہ کہہ کراجازت چاہیں گے کہ عورت مردکا رشتہ ہی اِنسان کا سب سے پہلا سماجی رشتہ ہے بس اِس رشتے کو سمجھنے اور اِس کا احترام کرنے کی ہمیں خود اپنے اندر توفیق پیداکرنی ہوگی اور مردوں کو عورت کے حقوق اداکرنے ہوںگے اور اِس پر ظلم وستم بندکرنے ہوںگے۔ تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم