ہمارے ہاں” رائے ”لفظ کا استعمال بہت عام ہے۔ہر شخص اپنی رائے رکھتا ہے اور اپنے طریقے سے اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔میں اپنی رائے کا اظہار اپنی تحریروں سے کرتا ہوں میں نے بڑی مرتبہ اپنی تحریروں میں موجودہ حکومت کوتنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔لیکن میری ذاتی طور پر صدرآصف زرداری اورسابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سمیت پیپلزپارٹی کے کسی فردیاپیپلز پارٹی سے کوئی رنجش نہیں ہے ۔ایک پاکستانی ہونے کے ناطے جو دیکھا’ سنا’پڑھا ‘جانا اور جاننے کے بعد جو محسوس کیا لکھ دیا۔ایک بات اور کہنا چاہوں گا جو لکھا وہ خالصتا میری ذاتی رائے تھی اور میری رائے ناقص اور غلط ہوسکتی ہے۔
حکومت پر تنقید تو میں آئندہ بھی کرتا رہوں گا لیکن آج میں صدر آصف علی زردای اورسابق وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی کی تعریف بھی کرئوں گا۔کیونکہ جہاں ہمیں حکومت کے کسی غلط اقدام پر تنقید یارائے کا اظہار کرنے کی آزادی ہے ،وہیں ہمیں کسی درست اقدام پر تعریفی رائے کا اظہار بھی کرنا چاہیے۔آج میں موجودہ حکمرانوں کی تعریف ضرور کرئوں گالیکن اس سے پہلے میں ذکرکرئوں گا ایک اخبار میں ایک ہی دن چھپنے والے دو مضمونوں کی دونوں مضمون نگاروں نے جمہوریت کی بات کی ہے لیکن دونوں کی رائے مختلف ہے۔ایک ہی صفحے پراوپر نیچے چھپے دومضمونوں کے کچھ حصے حاضر خدمت ہیں ۔(1)پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کوختم کرنے کے لیے بڑے دائو پیچ اور حربے استعمال کئے گئے لیکن صدر پاکستان آصف علی زرداری کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے کسی نہ کسی طرح بچائوکی راہیں ڈھونڈ کر جمہوری نظام کو پٹری سے اترنے سے بچائے رکھا۔
ppp pakistan
کبھی میموگیٹ کا ہواکھڑا کیا گیا’کبھی ایبٹ آباد کمیشن کی کارووائی سے حکومت پر دباو ڈالنے کی کوششیں کی گیئں اور کبھی نیٹو سپلائی لائن کواحتجاجی سیاست کا روپ دیاگیا تاکہ حکومت دبائو میں آکر نئے انتخابات کا اعلان کردے لیکن اپوزیشن کسی بھی ایشوپرحکومت کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبور نہ کرسکی ۔پی پی پی کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے اعلانات اور گو زرداری گو کے نعرے بھی اسی تناظر میں تھے لیکن آصف علی زرداری کی بہتر حکمت عملی کے سامنے مخالفین کے دانت کھٹے ہوگئے ۔اور مخالفین صدر آصف علی زداری کو ایوان صدر سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے موسیٰ گیلانی کوادویات کے ایک مقدمے میں پھانسنے کی کوششیں کی گیئں اور میڈیا نے اس خفیہ ایجنڈے پر جس طرح اسٹیبلشمٹ کی آواز میں آواز ملائی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔گویا کہ صاحب رائے کی نظر میں پی پی پی کی موجودہ حکومت کا ہر قدم جمہوریت ہے۔
میرے خیال میں صدرآصف علی زرداری کو ایوان صدر سے نکالنے کی کوشش کسی نے نہیں کی ہاں گوزرداری گو کا نعرہ ضرور لگایا گیالیکن یہ صرف ایک نعرہ تھا ۔پی پی پی کی موجودہ حکومت وہ پہلی جمہوری حکومت ہے جوچار سال سے زیادہ مدت پوری کرچکی ہے اور بظاہر یہی نظر آرہا ہے یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی اگر یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرتی ہے تو اس بات کا کریڈٹ صرف پی پی پی کو ہی نہیں جاتا بلکہ پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ ان تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی جاتا ہے جو ایوان میں موجود ہیں وہ چاہے حکومت میں رہیں یا اپوزیشن میں۔رائے (2) بدترین لوڈشیڈنگ ‘تیل وگیس کی قیمتوں میں بد ترین اضافہ ‘بے روزگاری ‘سرکاری اداروں کی تباہی کے عوامی گفٹ کے بعد ایک طرف عوام کو اپنے بچوں کے خالی پیٹ بھرنے کے لیے خوراک مہیا نہیں آرہی تو دوسری طرف سیاست دان ٹاک شوز اور جلسوں میں جمہوریت کا راگ بجاتے دیکھائی دیتے ہیں۔
asif ali zardari
صاحب کا خیال ہے کہ جب نادان بچے بھوک سے مارے بچے ٹی وی پر سیاست دانوں کو میک اپ لگا کر جمہوریت کی حفاظت پرگھنٹوں بحث کرتے سنتے ہیں تو وہ بچے اپنے والدین سے یہ سوال کرتے ہیں ۔یہ جمہوریت کس جن’بھوت یا پری کا نام ہے جواگرناراض ہوتو ہمیں کھانا نہیں ملتا اور اگر خوش ہو توپیٹ میں جگہ نہیں رہتی کھانے کے لیے ؟راقم بچہ تو نہیں لیکن آج اپنے آپ کو نادان محسوس کررہا ہے۔کیونکہ میرے ملک میں جمہوریت واقع ہی کسی جن بھوت یا پری کی مانند ہی ہے ۔جسے سنا جا سکتا ہے ۔پڑھا جاسکتا ہے ،لکھا جاسکتا ہے لیکن اس کا استعمال منع ہے ۔بالکل ایسے ہی جس طرح سگریٹ کے ہر پیکٹ پر لکھاہوتا ہے کہ تمباکو نوشی مضرصحت ہے ۔(حکومت فلاں )لیکن حکومت کی جانب سے ممنوعہ قرار دیے جانے کے با وجود سگریٹ ہرگلی ہرمحلے میں عام دستیاب ہے۔
ٹھیک اسی طرح جمہوریت بھی ایسی مقدس گائے ہے جسے صرف دور سے سنا اور دیکھا جاسکتا ہے لیکن عام آدمی کے لیے چھونا منع ہے۔کسی کی رائے کچھ بھی ہو فیصلہ تو 18کروڑ عوام ہی کرے گی ۔اور آئندہ عام انتخابات میں پتا چل جائے گا کہ موجودہ حکومت کتنی عوام دوست گزری ۔اگر عوام کی اکثریت دوبارہ پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتی ہے تو پھر ثابت ہوجاے گا کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت عوام دوست گزری۔سوال یہ نہیں کہ آنے والے عام انتخابات میں کون سی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔بلکہ سوال تو یہ ہے کہ عوام دوست پالیسی کون بنائے گا ؟لکھنا توکچھ اور تھا لیکن ابھی ابھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کوصاف صاف الفاظ میں نااہل قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کوفوری طور پر سیدیوسف رضاگیلانی کی نا اہلی کا نوٹفکیشن جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
iftikhar chaudhry
چیف جسٹس آف پاکستان نے فیصلے میں کہا ہے کہ سیدیوسف رضاگیلانی 26اپریل کوہی نااہل ہوگئے تھے اس لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ 26اپریل2012سے خالی ہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے بعد زیادہ سے زیادہ وزیراعظم تبدیل ہوجاے اس سے زیادہ فی لحال کسی بڑی تبدیلی کی امید نظر نہیں آتی ۔لیکن مستقبل قریب میں مثبت تبدیلیوں کی امید کی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے ۔اس موقع پر میں چیف جسٹس آف پاکستان جناب چودھری افتخار صاحب کی جرات اور انصاف پسندی کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سیدیوسف رضاگیلانی کی نااہلی تمام مسائل کا حل ہے ؟کیا نیا آنے والا وزیراعظم سوئس حکام کو وہ خط لکھے گا جس کے نہ لکھنے کی وجہ سے سیدیوسف رضاگیلانی نا اہل قرار پائے۔تحریر : امتیاز علی شاکر