کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) اس بات میں کیا حقیقت ہے کہ نہ اب پیپلزپارٹی غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی پارٹی رہی ہے اور نہ ہی اب اس کا نظریاتی جھکاؤ اشتراکی خیالات کی طرف ہے۔ کیا یہ پارٹی اب واقعی جاگیرداوں کے ہتھے چڑھ چکی ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی اپنا 54 واں یوم تاسیس منا رہی ہے اور اس موقع پر منگل کو پشاور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے بھوک و افلاس کی دہائی بھی دی اور فاقوں سے تنگ آ کر خودکشی کرنے والے عوام کا دکھ بھی بیان کیا۔ لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ نہ اب پیپلزپارٹی غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی پارٹی رہی ہے اور نہ ہی اب اس کا نظریاتی جھکاؤ اشتراکی خیالات کی طرف ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد 30 نومبر 1967 کو ذوالفقارعلی بھٹو کے دور کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر رکھی گئی تھی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پارٹی کی تشکیل میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا، اسی لیے پارٹی نے اپنے بنیادی نعروں میں سوشلزم کو بھی شامل کیا تھا۔
انیس سو ستر کے الیکشن میں پارٹی نے اچھی خاصی تعداد میں انتخابات میں ایسے سیاسی کارکنوں کو کھڑا کیا جن کا تعلق نسبتا متوسط طبقے یا نچلے طبقہ سے تھا، اسی لیے کئی ناقدین کے خیال میں اس وقت پارٹی کا رنگ ایک عوامی تھا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ صورتحال تبدیل ہو گئی۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی پر جاگیرداروں کا اثر مسلسل بڑھا ہے اور پارٹی ان کے چنگل سے اپنے آپ کو چھڑا نہیں سکی۔ معروف دانشور ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ پارٹی میں جاگیردار ہمیشہ سے رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “بھٹو صاحب خود بھی جاگیردار تھے اور پارٹی میں اور بھی جاگیر دار تھے لیکن اس وقت پارٹی میں مزدوروں، کسانوں اور عام کارکنان کی سنی جاتی تھی۔ پارٹی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی تھی جو عوامی منشا اور خواہشات کے خلاف ہو یہاں تک کہ بھٹو صاحب بھی اس طرح کا کرنے کا سوچ نہیں سکتے تھے۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے اور اب پارٹی کا وہ عوامی رنگ نہیں رہا۔‘‘
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے ممتاز دانشور امداد قاضی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ بھٹو کے دور میں سیاسی مخالفین کے ساتھ جنسی تشدد بھی کیا گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “میاں طفیل،جان محمد عباسی اور اللہ ڈنو شیخ سمیت جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جے اے رحیم کے گھر میں گھس کر ان کو اور ان کے بیٹے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بھٹو نے لانڈھی کے انڈسٹریل ایریا میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین قتل عام مزدوروں کا کیا اور وہ بھی سوشلزم کے نام پر۔‘‘
امداد قاضی کا مزید کہنا تھا کہ لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بھٹو تضادات کا مجموعہ تھا، “سندھ میں غلام مصطفی جتوئی، بلوچستان میں غوث بخش رئیسانی اور پنجاب میں غلام مصطفی کھر جیسے بڑے جاگیرداروں کے ساتھ مل کر بھٹو زرعی اصلاحات لانے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کا پہلا کنونشن بھی ایک بڑے جاگیردار اور پیر مخدوم طالب المولی کے گھر پر ہوا۔‘‘
ناقدین کا خیال ہے کہ زرداری کی سیاست نے پی پی پی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ امداد قاضی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ”شاید بھٹو کچھ ہی جاگیرداروں کو اپنے ساتھ ملا سکے لیکن زرداری نے سندھ کے سارے بڑے جاگیرداروں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ کرپشن نواز شریف نے بھی کیا اور عمران خان بھی اس سے ماورا نہیں ہے لیکن زرداری صاحب کے کرپشن کا آپ اس سے اندازہ لگا لیں کے پہلے ان کی دو شوگر ملیں تھیں اور اب انیس ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ میں وہ زمینوں پر قبضے کروا رہے ہیں۔‘‘
معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ جب بھی سیاسی جماعتوں میں قیادت کی تبدیلی ہوتی ہے تو پالیسیز بھی بدلتی ہیں انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “بھٹو صاحب دوراندیش سیاست دان تھے اور بے نظیر بھٹو بھی تقریبا انہی کے نقش قدم پر چلیں حالانکہ انہوں نے کچھ تبدیلیاں کی ہیں لیکن زرداری صاحب حقیقت پسند سیاستدان ہیں اور وہ اپنی پارٹی کو زیادہ آزمائش میں ڈالنا نہیں چاہتے اور وہ اقتدار میں بھی رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی انہی پالیسیز کی وجہ سے اقتدار بھی لیا، صدارت بھی اور وزارت عظمی بھی پارٹی کے نام کی۔ سندھ پر بھی تیرہ سال سے حکومت کر رہے ہیں لیکن اس کا یہ نقصان ہوا کہ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو گئی۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہی پارٹی نے بہت ساری غلطیاں کی جس کی وجہ سے پارٹی کا امیج خراب ہوا۔ بھٹو نے سیاست کے لیے مذہب کا استعمال کیا اور اسی مذہبی سیاست کا سہارا لے کر مولویوں نے اس کے خلاف بھرپور تحریک چلائی، جو بالآخر بھٹو کے زوال کا سبب بنیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما بشیر ریاض، جو ماضی میں بے نظیر بھٹو کے مشیر بھی رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ پارٹی سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں لیکن پارٹی پر مقتدر قوتوں کی طرف سے بے شمار حملے بھی ہوئے ہیں اور اس کو بد نام کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” پہلی بڑی غلطی اس وقت ہوئی، جب ہم نے سن 1977 کے انتخابات میں جاگیرداروں کو ٹکٹس دیے۔ اٹھاسی کے الیکشن میں بھی بڑی تعداد ایسے لوگوں کو شامل کیا، جنہیں عام زبان میں الیکٹ ایبل کہا جاتا ہے۔ اس سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔‘‘
بشیر ریاض کا کہنا ہے کہ پارٹی کو بد نام کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے الزامات لگائے جاتے رہے لیکن حقیقت میں ان الزامات کو کبھی بھی عدالتوں میں ثابت نہیں کیا جا سکا، “زرداری صاحب پر ایک بھی الزام ثابت نہیں ہوا لیکن کرپشن کی رٹ لگا لگا کر پارٹی کو بد نام کرنے کی کوشش کی گئی۔‘‘
پی پی پی پر وراثتی سیاست کو فروغ دینا کا الزام لگایا جاتا ہے۔ بلاول کے نام کے آگے اور بختاور کے بیٹے کے نام کے آگے بھٹو کا اضافہ اس وراثتی رجحان کا اشارہ دیتے ہیں۔ لیکن بشیر ریاض کا دعوی ہے کہ اس کو صیح تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ” لوگ وراثتی سیاست کی بات تو کرتے ہیں لیکن لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ بھٹو خاندان نے جمہوریت کے لیے کتنی قربانی دے دی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ناقدین کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف سازشیں کتنی ہوئی، “اٹھاسی میں پنجاب میں ہم نے اکثریت حاصل کر لی تھی اس کے باوجود ہمیں حکومت نہیں دی گئی۔ بعد میں جنرل مشرف کے دور میں ہماری پارٹی میں سے پیٹریاٹ گروپ بنایا گیا۔ لیڈر شپ کو جلا وطن کیا گیا اور پارٹی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن پیپلز پارٹی آج بھی موجود ہے۔‘‘