گستاخی

Tahir Razzaq

Tahir Razzaq

دیکھیئے جناب دیکھیئے ایک تو ملاز م اوپر سے غریب اور انکار کس کو کر رہا ہے ،،خادم اعلیٰ پنجاب ،،کی صاحبزادی کو آپ زرا اس گستاخ نوجوان کی جرائت کا اندازہ لگائیں کہ اس کو زرا بھی خیال نہ آیا کہ مجھے اس طرح کی حرکت نہیں کرنی چاہیئے میں تو کہتا ہوں اس کو اس انکار کی جو سزا دی گئی ہے وہ تو بالکل تھوڑی ہے بلکہ جتنا بڑا اس کا گناہ ہے اس کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں سر عام بھری بیچ چوراہے کے اس کو جو تھپڑ ،مکے ،ٹھڈے ،اور غلیظ دشنام درازی کی گئی اس غلطی کے بدلے میں یہ کوئی بڑی سزا نہیں اور اگر ،بیگم صاحبہ ،اور ،صاحب،جی نے تھوڑی دیر کلیئے اپنے سامنے اپنے شیر جوانوں سے اس کی درگت بنوا لی تو کون سا پہاڑ ٹوٹ گیا ۔

تھوڑی سی اس مار پٹائی سے ان کا کچھ ملال تو کم ہوگیا یہ میڈیا والے تو بس ایویں ہی بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں ،قائرین محترم آپ خود اندازہ لگائیں جو بند دن رات آپ کیلئے ایک کر رہا ہے آپ کی خدمت ہی اس کا نصب العین ہے ،بلکہ انھوں نے تو اپنا نام ہی خادم اعلیٰ رکھ لیا ہے ۔تو کیا اب ان کی لاڈلی صاحبزادی کو اتنا تھوڑا سا بھی اختیار نہیں کہ وہ کسی بیکری ملازم کو تھوڑا سا سبق سکھا سکیں اور پھر آپ دیکھیں نہ ایک تو وہ ملازم اوپر سے غریب ،اس کا تو اتنا ہی قصور بہت تھا اور پھر رہتا بھی ان کی سلطنت میں تھا ۔میں تو کہتا ہوں ایسے گستاخ کو تو سرعام الٹا لٹکا کر اس کی چمڑی ادھیڑ دینی چاہئے اس کا منہ کالا کر کے پورے لاہور کا چکر لگوانا چاہیئے تا کہ کسی اور بے وقوف کو اس طرح کی حرکت کرنے کی ہمت نہ ہو کہ وہ والئی سلطنت کی پیاری صاحبزادی سے اتنا برا سلوک کرے۔

میں تو سوچ رہا تھا کہ یہ بد بخت بیکری ملازم کتنا خوش نصیب ہے کہ ،،خادم اعلی ٰ،،کا دور تھا جو یہ بچ گیا ہے اگر کسی اور کی حکومت ہوتی تو شاید اس کو جان دے کر ہی اپنی جان چھڑانی پڑتی اس کو تو ساری زندگی ،خادم اعلیٰ ،،صاحب کا احسان ماننا چایئے۔کہ ان کی کرم نوازی کیوجہ سے اس کی جان بخشی گئی ورنہ آج کے دور میں اتنا بڑا جرم کون معاف کر تا ہے ،اور میں تو یہ سن کر حیران اور پریشان ہو گیا کہ جناب خادم اعلیٰ نے اس چھوٹے سے بندے کی خاطر اپنے اتنے عزت دار داماد جی کو بھی شامل تفتیش کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے ۔اور یہ کیس بھی پنجاب کی ایماندا پولیس کو سونپا گیا ہے جو کہ صرف میرٹ پر ہی تفتیش کر کے ملزمان کو سزا دیتی ہے اور نہ ہمارا یہ محکمہ کسی کے ساتھ رعائت نہیں برتتا چاہے کوئی کسی منسٹر کا رشتہ دار ہو یا کوئی گنگو تیلی ہو ان کی نظروں میں سب برابر ہیں ۔

اس کو کہتے ہیں انصاف اس کو کہتے ہیں گڈ گورنس اگر جناب خادم اعلیٰ صاحب چاہتے تو یہ کیس ایف آئی اے کے سپرد بھی کر سکتے تھے مگر انہیں معلوم تھا کہ وہ اس کیس کی درست انویسٹیگیشن نہیں کریں گے اور ملز م بہت جلد رہا کردئے جائیں گے ۔جناب خادم اعلیٰ مجھے تو آپ کی انصاف پسندی دیکھ کر پرانا دور یاد آگیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہاٰکا دور جہاں وہ اپنے بیٹے کو بھی کوڑے مرواتے ہیں اور کوڑے کھاتے کھاتے وہ اپنی جان دے دیتا ہے مگر جو کوڑے اس کی مرنے کے بعد باقی رہ جاتے ہیں وہ اس کی قبر پر برسائے جاتے ہیں ۔اسی طرح کا ایک اور واقع ہے کہ جبلہ بن لایہم غسانی شام کا مشہور رئیس مسلمان ہو گیا ۔

Emran Ali

Emran Ali

وہ کعبہ مکرمہ کے طواف کو آیا وہ طواف کر رہا تھا کہ اس کی چادر کا ایک گوشہ ایک شخص کے پائوں کے نیچے آ گیا جبلہ نے غصہ میں آکر اسے ایک تھپڑ رسید کر دیا اس شخص نے بھی آگے سے جبلہ کو زور کا تھپڑ دے مارا جبلہ اس کی شکائت لے کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہاٰ کے پاس حا ضر ہو اآپ نے شکائت سننے کے بعد فرمایا تم نے جو کیا اس کی سزا پائی اس کو سخت حیرت ہوئی اس نے کہا جو ہم سے گستاخ کرے اس کی سزا قتل ہے ۔فرمایا دور جہالیت میں ایسا ہی تھا لیکن اسلام نے پست وبلند کو ایک کر دیا ہے۔قائرین محترم اس کو کہتے ہیں ا نصاف اس کو کہتے ہیں گڈ گورنس کہ کوئی غریب غلام ہو یا شام کا کوئی رئیس زادہ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا تھا کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں دی جاتی تھی ۔سب کلئیے انصاف اور سزا کا عمل ایک جیسا ہی تھا چاہے وہ خلیفہ وقت کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو ۔مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں سب سے پہلے قانون توڑتے ہی قانون بنانے والے ہیں کیا آج وہ غریب بیکری ملازم اس شخص کو برابر کا تھپڑ مار سکتا ہے کیا وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لے سکتا ہے کیا آج کا ٹانگ کے بدلے ٹانگ اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ کے مصداق ،،خادم اعلیٰ اپنے داماد کو اسی بیکری کے سامنے اس غریب ملازم سے تھپڑ مروائے گا اس کی اسی طرح درگت بنوائے گا جس وحشیانہ انداز میں اس بیکری ملازم کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،نہیں بالکل نہیں ایسا کچھ بھی نہیں کیا جائے گا بس ایک خانہ پوری کا دکھاوے کا گڈ گورنس کا ڈھونگ رچانے کا چھوٹا سا ڈرامہ کیا جائے گا۔

ان معزز ملزمان کو رپورٹ لکھے جانے سے تھانے تک اور تھانے سے عدالت تک جانے کی ہی ذحمت اٹھانی پڑے گی ان میں سے نہ تو کوئی ملز م سے مجرم بنے گا اور نہ ہی کسی میں ہمت ہوگی کہ ان کو 10 ،15 دن کیلئے ریمانڈ پر جیل بھیج سکے ان کو ان کے کئیے ہوئے گناہ کی سزا دے سکے ۔ قائرین محترم جس ملک میں طاقتور کو ہرسزا سے اثتسنیٰ حاصل ہو وہاں ہر روز اس طرح کے کئی بیکری ملازمیں کسی نہ کسی رئیس زادے اور رئیس زادی کے تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں ۔اللہ پاک رحم فرمائے یہ نا انصافی کا زہر اس ملک کو چاٹ جائے گا۔

تحریر : طاھر رزاق