آپ کا اسم گرامی ”علی” ہے ابو الحسن آپ کی کنیت ہے اور داتا گنج بخش آپ کا مشہور ترین لقب ہے۔ حتیٰ کہ اکثر لوگ آپ کو آپکے نام ”علی” کی بجائے آپ کے لقب ”داتا گنج بخش” سے ہی جانتے ہیں۔ آپ افغانستان کے مشہور شہر غزنی میں 400 کے لگ بھگ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے: سید ابو الحسن علی ہجویری بن سید عثمان بن سید علی بن سید عبدالرحمن بن سید عبداللہ (سید شاہ شجاع) بن سید ابو الحسن علی بن سید حسن اصغر بن سید زید بن سید امام حسن مجتبیٰ بن امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فی الجنہ ورحمہم اللہ اجمعین۔ آپ کی ولادت ننھیالی گھر غزنی کے محلہ ہجویر میں ہوئی جس وجہ سے آپ کو ہجویری کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد حضرت سید عثمان رحمة اللہ علیہ جید عالم عظیم فقیہ اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ آپ کی والدہ بھی بہت عابدہ زاہدہ اور پارسا خاتون تھیں۔ آپ کے ماموں زہد و تقویٰ اور علم وفضل کی وجہ سے ”تاج العلمائ” کے لقب سے مشہور تھے۔ آج بھی آپ کے ماموں حضرت تاج العلماء کا مزار اقدس غزنی میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
آپ کا گھر علم و فضل اور روحانیت کا گہوارہ تھا اور غزنی شہر بھی ان دنوں علوم و معارف کا مرکز تھا یہ سلطان محمود غزنوی کا دور تھا جو علم دوست بادشاہ تھے اور غزنی شہر میں علماء اور مدارس بھی بکثرت تھے بلکہ سلطان محمود غزنوی نے خود بھی غزنی شہر میں ایک عظیم الشان مدرسہ اور ایک عظیم مسجد تعمیر کی تھی۔ چنانچہ آپ کے والدین اور ماموں حضرت تاج العلماء نے آپ کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی چار سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ اپنے والدین سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے علاوہ نہ صرف غزنی شہر بلکہ تاشقند، سمر قند، بخارا، فرغانہ، ماوراء النہر، ترکستان، خراسان، توس، نیشا پور، مہنہ، قہستان، مرو، سرخس، فارس، کرمان، بیت المقدس، شام و عراق، آذر بائیجان، طبرستان، خورستان، سوس، ہندوستان اور دیگر متعدد بلاد و ممالک کے سفر کئے اور ممتاز علماء و صوفیاء سے اکتساب علم و فیض کیا۔ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں میں نے خراسان میں تین سو علماء سے ملاقاتیں کیں۔ آپ نے اپنے کثیر اساتذہ میں سے خصوصی طور پر شیخ ابو العباس احمد اشقانی رحمة اللہ علیہ اور شیخ ابوالقاسم علی گور گانی رحمة اللہ علیہ کا بڑے ادب وعقیدت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔ آپ نے تمام مروجہ علوم معقول و منقول میں کمال حاصل کیا۔ وعظ و ارشاد، درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے علاوہ مناظرہ میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا آپ مسائل فقہیہ میں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمة اللہ علیہ کے مقلد تھے۔ کشف المحجوب میں آپ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا شمار اجل صوفیا میں بھی کیا ہے۔ اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کو امام الائمہ، شرف فقہاء اور دیگر عظیم الشان القاب سے ملقب کیا ہے اور بڑے ادب سے آپ کا تذکرہ کیا ہے۔
حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں، میں علی بن عثمان ملک شام میں حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قبر پر سورہا تھا خواب میں دیکھا کہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باب بنو شیبہ سے (حرم شریف میں) تشریف لائے اور ایک بوڑھے شخص کو آغوش میں لیا ہوا ہے جیسے بچوں کو آغوش میں لیا جاتا ہے۔ تو میں نے دوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدم بوسی کی۔ میں حیران تھا کہ یہ بوڑھا شخص کون ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعجازاً میری اس کیفیت اور خیال سے مطلع ہوکر فرمایا یہ تیرا اور تیرے اہل ملک کا امام ابو حنیفہ ہے۔ پھر آپ اس خواب کی تعبیر یوں بیان فرماتے ہیں: ”اس خواب سے مجھے اور میرے اہل شہر کو بڑی امید بندھی مجھ پر ثابت ہوگیا کہ وہ ان افراد میں سے ایک ہیں جو اوصاف طبع سے فانی، احکام شرع سے باقی اور ان سے قائم ہیں۔ حقیقتاً انہیں اوصاف طبع سے نکال کر لے جانے والے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
اگر وہ خود اوصاف طبع رکھتے تو باقی صفت ہوتے۔ باقی صفت، خطا کرنے والا ہوتا ہے یا حق کو پہنچنے والا۔ چونکہ انہیں اوصاف طبع سے نکال کر لے جانے والے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں لہٰذا وہ فانی صفت اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بقاء سے باقی و قائم ہیں۔ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطا نہیں ہوسکتی تو اس شخص سے بھی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قائم ہے خطا کا ہونا غیر ممکن ہے اور یہ ایک نکتہ ہے”۔
آپ نے سلوک کی منازل کی تکمیل کیلئے اس دور کے سلسلہ جنیدیہ کے جلیل القدر روحانی پیشواء اور متبحر عالم دین حضرت شیخ ابو الفضل محمد بن حسن جنیدی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ارشاد فرمائی۔ جو ملک شام میں دمشق اور بانیار کے درمیان بیت الجن نامی ایک بستی میں رہتے تھے اور جہاں پر اب ان کا مزار ہے۔ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ خود حنفی المذہب تھے لیکن طریقت میں آپ نے حنبلی المذہب شیخ ابوالفضل ختلی رحمة اللہ علیہ کی بیعت کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکابر اولیاء امت کے قلوب فقہی اختلافات کے باوجود تعصبات سے پاک تھے۔
آپ کا سلسلہ طریقت اس طرح ہے۔ داتا گنج بخش علی ہجویری رحمة اللہ علیہ، مرید شیخ ابوالفضل محمد بن حسن ختلی کے، وہ مرید شیخ ابوالحسن علی حضرمی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابوبکر شبلی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ سری سقطی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ معروف کرخی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ دائود طائی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید حضرت حبیب عجمی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید باب مدینة العلم سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے اور وہ تربیت یافتہ حبیب خدا سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے۔
حضرت شیخ ابو الفضل ختلی رحمة اللہ علیہ صاحب کشف و کرامات جلیل القدر ولی اللہ، متبحر عالم، عارف اکمل، شریعت مطہرہ کے سخت پابند اور زہد و تقویٰ میں یگانہ روزگار تھے۔ آپ سالکین کو کم کھانے کم خوابی اور کم بولنے کی تلقین فرماتے تھے۔ آپ نے جبل لکام میں ساٹھ سال طویل چلہ کشی فرمائی۔ حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے پیر و مرشد کے وصال کے وقت آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ آپ نے فرمایا: ”بیٹا! میں تمہیں عقیدے کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں اگر تم نے اس پر عمل کرلیا تو ہر قسم کے رنج و تکلیف سے بچ جائو گے۔ یاد رکھو کہ ہر جگہ اور ہر حال اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد تیرے لئے مناسب ہے کہ نہ تو اس کے کسی فعل پر انگشت نمائی کرے اور نہ ہی دل میں اس پر معترض ہو اسکے علاوہ آپ نے اور کچھ نہ فرمایا اور جاں بحق تسلیم ہوگئے۔” یہ 455 تھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ لاہور قیام کے دوران کچھ عرصہ (تقریبا 2 سال) کیلئے شم اپنے پیرو مرشد کے پاس چلے گئے تھے اور 455 میں ان کے وصال کے بعد پھر لاہور واپس آگئے تھے۔
Data Darbar Data Gunj Bakhsh
آپ غزنی میں لوگوں کی تعلیم و تربیت اور عبادت و ریاضت میں مشغول تھے کہ خواب میں پیر و مرشد حضرت شیخ ختلی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: اے فرزند تمہیں لاہور کی قطبیت پر مامور کیا جاتا ہے اٹھو اور لاہور جائو۔ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا میرے پیر بھائی شیخ حسین زنجانی قطبیت لاہور پر مامور ہیں ان کی موجودگی میں اس عاجز کی کیا ضرورت ہے۔ ارشاد ہوا ہم سے حکمت دریافت نہ کرو اور بلاتوقف لاہور روانہ ہوجائو۔ چنانچہ داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ 431 میں لاہور تشریف لائے اس وقت لاہور کا نام لہانور تھا۔ یہ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی کا دور تھا۔ پنجاب اگرچہ غزنی حکومت کا جز تھا لیکن لاہور پر اس وقت ہندو مذہب اور ہندو تہذیب چھائی ہوئی تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں طویل سفر کے بعد جب لاہور پہنچا تو رات کا وقت تھا اور لاہور کے دروازے بند ہوچکے تھے۔ علی الصبح میں لاہور میں داخل ہوا تو شیخ زنجانی کے جنازہ کا بڑا انبوہ دیکھا اور شیخ زنجانی کی وصیت کے مطابق میں نے نماز جنازہ کی امامت کی۔
یاد رہے کہ بعض تبصرہ نگاروں نے آپ اور شیخ زنجانی رحمة اللہ علیہ کے پیر بھائی ہونے کی نفی کی ہے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ ملفوظات خواجہ نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ کتاب فوائد الفواد شریف میں ان دونوں بزرگوں کا پیر بھائی ہونا صریحاً مذکور ہے۔ جہاں آج آپ کا مزار اقدس ہے اس وقت یہ جگہ دریائے راوی کے کنارے پر تھی اس جگہ آپ قیام پذیر ہوئے اور سادہ سی مسجد و مدرسہ پر مشتمل خانقاہ کی بنیاد رکھی اور یہی خانقاہ بعد میں برصغیر کی تمام خانقاہوں، مدارس اسلامیہ اور اسلام کی اشاعت و تعلیم و تربیت کی بنیاد ثابت ہوئی۔ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ نے مسجد کا رخ سیدھا مغرب کی بجائے مائل بجنوب رکھا تو لاہور کے علماء معترض ہوئے تو آپ نے تمام علماء لاہور کو کھانے پر دعوت دی نماز کی امامت خود فرمائی اور بعدازاں فرمایا بعض لوگوں کو مسجد کی سمت قبلہ پر کچھ شک ہے۔ میری درخواست ہے کہ ایک ساعت کے لیے آنکھیں بند کرکے مراقبہ کریں چنانچہ آپ نے ایسی توجہ فرمائی کہ تمام نمازیوں کے لیے تمام حجابات اٹھ گئے اور سب نے دیکھا کہ خانہ کعبہ سامنے ہے اور مسجد مب رک بلکل صحیح سمت پر تعمیر کی گئی ہے۔
رائے راجو ایک ہندو اور انتہائی سخت جادوگر تھا اسے جو دودھ کا نذرانہ نہ دیتا اسکے جانور پر ایسا جادو کرتا کہ اس جانور سے دودھ کی بجائے خون نکلتا تھا۔ ایک بوڑھی عورت رائے راجوکے پاس دودھ کا نذرانہ لے جارہی تھی کہ آپ نے اسے آواز دی کہ کچھ دودھ قیمت لے کر مجھے دے دو تو اس بوڑھی عورت نے رائے راجو کے جادو کا عذر کرکے دودھ بیچنے سے انکار کردیا اس پر حضرت داتا رحمة اللہ علیہ نے مسکرا کر فرمایا اگر تم دودھ دے دو تو تمہارے جانوروں کا دودھ بڑھ جائے گا چنانچہ اس خاتون نے بادل نخواستہ دودھ پیش کردیا جب گھر گئی تو اس کی حیرت کی حد نہ رہی کہ جانوروں کا دودھ اس قدر زیادہ ہوگیا کہ تمام برتن دودھ سے بھر گئے تو تھنوں سے دودھ ختم نہیں ہورہا تھا جب یہ خبر پھیلی تو اگلے روز گردونواح کے تمام لوگ دودھ کا نذرانہ لے کر حاضر ہونے لگے تو اس طرح درویشوں اور مسافروںکے لیے لنگر کا سلسلہ شروع ہوا جوکہ آج تک جاری ہے۔ رائے راجو کا دودھ کا نذرانہ بند ہوا تو اسے بڑا طیش آیا اور وہ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے سامنے آیا اور آپ کو مقابلے کے لیے للکارتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس کوئی کمال ہے تو دکھائو۔ آپ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کا عاجز بندہ ہوں اگر تمہارے پاس کوئی کمال ہو تو دکھائو۔ رائے راجو نے جواب دیا تو لو دیکھو میرا کرشمہ یہ کہا اور جادو کے زور پر ہوا میں اڑنے لگا۔ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ مسکرائے اور اپنے جوتے ہوا میں پھینک دیئے اور وہ جوتے رائے راجو کے ساتھ ہوا میں اڑنے لگے۔ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ کی یہ کرامت دیکھ کر رائے راجو نے توبہ کرکے اسلام قبول کیا۔ چنانچہ حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ نے اس کی شاندار روحانی تربیت کی اور اسے شیخ ہندی کا خطاب دیا چونکہ داتا صاحب رحمة اللہ علیہ کی اولاد نہیں تھی لہٰذا شیخ ہندی کی اولاد اس وقت سے لے کر آج تک خانقاہ کی خدمت کے فرائض انجام دیتی آ رہی ہے۔
آپ کا مزار اقدس مرکز تجلیات و پناہ گاہ خلق خدا اور یہ بات اہل علم پر واضح ہے کہ موت سے روح ختم نہیں ہوتی بلکہ جسم سے آزاد ہونے کی وجہ سے پہلے سے زیادہ طاقتور وفعال ہوجاتی ہے۔ لہذا ولایت جوکہ اللہ تعالیٰ کے قرب و دوستی کا نام ہے وفات سے ختم نہیں ہوتی بلکہ اصحاب روحانیت وفات کے بعد دنیاوی زندگی سے بڑھ کر فیض رسانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس حقیقت پر ایک معتبر گواہی سلسلہ چشتیہ کے مورث اعلیٰ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی ہے جنہوں نے داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کے مزار اقدس پر اکتساب فیض کا چلہ مکمل کرنے کے بعد فرمایا: گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں راہ رہنما جبکہ مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں: سید ہجویر مخدوم امم مرقد اوپیر سنجر راحرم بند ہائے کوہسار آساں کیسخت در زمین ہند تخم سجدہ ریخت عہد فاروق از جماش تازہ شد حق زحرف او بلند آوازہ شد پاسبان عزت ام الکتاب از نگاہش خانہ باطل خراب خاک پنجاب ازدم او زندہ گشت صبح از مہراوتا بندہ گشت عاشق وہم قاصد طیار عشق از جبینش آشکار اسرار عشق نیز برصغیر کی مسلمہ علمی فکری و روحانی شخصیت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ نے بھی آپ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور اکتساب فیض کیا اور پھر فرمایا: ”مزار اقدس سے انوار وتجلیات کی ایک ایسی بارش برس رہی ہے جس سے تمام بلاد ہند مستفیض ہورہے ہیں۔” خیال ہے کہ حرمین شریفین کے بعد علماء و صلحاء بادشاہوں و حکمرانوں اور تمام شعبہ زندگی کے عوام و خواص کی سب سے زیادہ شب روز حاضری آپ کے دربار عالیہ پر ہوتی ہے۔ اور روحانی فیوض و برکات کے ساتھ آپ کا لنگر روز بروز وسیع سے وسیع تر ہورہا ہے۔ دنیا کے کسی بادشاہ کے دروازے پر اس قدر مہمان نوازی نہیں جو مہمان نوازی آپ کے مزار اقدس پر شب و روز جاری ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں غریب وسفید پوش لوگ نہ صرف خود لنگر کھاتے ہیں بلکہ اپنے اہل و عیال کے لیے گھر میں بھی لے جاتے ہیں۔
اب ہم لفظ داتا گنج بخش کی شرعی حیثیت کی پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتے ہیں، داتا فارسی زبان میں سخی کو کہتے ہیں اور گنج بخش کا معنی بھی اس کے قریب ہی ہے یعنی خزانہ دینے والا لہٰذا سخی کا لفظ ایک عام آدمی پر اطلاق کرنے میں بھی کوئی شرعی و عقلی قباحت نہیں۔ چہ جائے کہ داتا کالفظ ایک ایسی ہستی پر بولا جائے جس نے ساری زندگی قرآن وسنت کی تعلیمات اور علوم ومعارف کے خزانے مخلوق خدا میں تقسیم کئے اور ان کی قبر انور بھی مرکز انوار وتجلیات وپناہ گاہ خلق خدا ہے۔ مشکوة المصابیح کتاب العلم صفحہ: 37 پر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ”کیا تم جانتے ہو کہ سب سے بڑا سخی (داتا) کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا اللہ سب سے بڑا سخی (یعنی داتا) ہے اور پھر اولاد آدم میں سب سے بڑا داتا میں ہوں اور میرے بعد سب سے بڑا داتا وہ ہے جو علم پڑھے اور اس کی اشاعت کرے۔
Pir Muhammad Afzal Qadri
قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے ایک امیر یا ایک امت کی حیثیت سے اٹھائیگا۔”اس حدیث کی رو سے اللہ تعالیٰ کی عطاء سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق میں بڑے داتا ہیں اور آپکے وسیلہ سے آپکی امت کے علماء بھی داتا ہیں۔ آپ نے متعدد کتب تصنیف فرمائیں لیکن ” کشف المحجوب ” کو بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی یہ کتاب فارسی زبان میں تصوف اسلامی پر پہلی اور اپنے موضوع پر سب کتب پر فائق تصنیف ہے۔ یہ کتاب شریعت اور سلوک کے طالب علم کے لیے مرشد کا درجہ رکھتی ہے۔ اسلامی عقائد و اعمال، اخلاق ظاہرہ و باطنہ اور علم تصوف کی تشریح اور اکابرین اسلام وبزرگان دین کے تعارف اور گمراہ، بے علم ولاعلم صوفیوں کی نشاندہی اور ان سے احتراز کرنے کی تلقین پر مشتمل ایک شاہکار تصنیف ہے۔ اس گمراہی و فرقہ پرستی کے دور میں راہ حق کے طالبین کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے اور اس مبارک کتاب کو نصابوں میں شامل کرنا چاہئے۔