ہر قدم کی اپنی اپنی چال ہے آدمی لڑھکا ہوا فٹ بال ہے خستہ و برگشتہ و بد حال ہے یہ ھماری پیاری اصغر مال ہے چہرہ بنگلوں کا بظاہر لال ہے بیچ سے دیکھو تو پتلا حال ہے اپنے اپنے مچھروں کی جھیل ہے اپنی اپنی مکھیوں کا ٹال ہے بنگھنیں اس پر بچھا جاتی ہیں روز جس کے گھر میں جتنا جتنا مال ہے گھر کی ہر نالی بتا دیتی ہے روز آج گھر میں گوشت ہے یا دال ہے زید کی دہلیز پر جو چیز تھی یہ بکر کا ”نامہ اعمال” ہے تر گڑھوں کا اک علیگڑھ ہر طرف ہر گڑھا تاریخ ماہ و سال ہے آدمی سے بڑھ کے اصغر مال پر بھینس کا گوبر بلند اقبال ہے